Book Name:Meraj e Mustafa Me Seekhne Ki Baatain
روایت میں ہے: معراج کی رات جب پیارے آقا، مکی مَدَنی مصطفےٰ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم اللہ پاک کی بارگاہ میں حاضِر ہوئے تو اللہ پاک نے فرمایا: بِمَ اُشَرِّفُکَ یعنی اے پیارے محبوب صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم ! آج آپ کو کس شرف سے نوازُوں؟ عرض کیا: اے رَبِّ کریم! مجھے اپنی طرف بندگی کی نسبت عطا فرما۔ اس پر اللہ پاک نے یہ آیتِ کریمہ نازِل فرمائی، ارشاد ہوا: ([1])
سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِه (پارہ:15، بنی اسرائیل:1)
ترجمہ ٔکنزُالعِرفان: پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے خاص بندے کو رات کے کچھ حصے میں سیر کرائی۔
اللہ! اللہ! پیارے اسلامی بھائیو! اللہ پاک کے بندے تو سب ہی ہیں، میں بھی اللہ کا بندہ ہوں، آپ بھی اللہ کے بندے ہیں مگر یہ میرے اور آپ کے آقا، مکی مَدَنی مصطفےٰ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کی خصوصی شان ہے کہ رَبِّ کریم نے آپ کو عَبْدِہٖ یعنی اپنا خاصُ الخاص بندہ فرمایا ہے۔ قرآنِ کریم میں اور کسی کو بھی یہ والا خِطاب عطا نہیں کیا گیا۔
پیارے اسلامی بھائیو! یہ (یعنی عبدُہٗ ہونا) انتہائی اعلیٰ شان ہے۔ عُلَما فرماتے ہیں: اگر انسان کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی مقام ہوتا تو اُس قُرْبِ خاص میں رسولِ ذیشان صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کو وہی مقام عطا کیا جاتا۔([2])
پیارے اسلامی بھائیو! یہاں سے ہمیں سبق سیکھنے کو ملا کہ ہم نے اللہ کا بندہ بننا ہے۔ انسان کا پہلا اور آخری رُتبہ یہی ہے۔ لہٰذا اس دُنیا میں آ کر ہم کچھ اور بن سکیں یا نہ بن سکیں، البتہ صحیح معنوں میں اللہ پاک کے بندے تو بن ہی جانا چاہئے۔ ہم نے صحیح معنوں میں اللہ کا