Book Name:Sawab Kise Kehty Hain?
یعنی بندہ جس چیز کی بھی طلب رکھتا ہو، اُسے چاہیے کہ گُنَاہ کا رَسْتہ نہ اَپنائے بلکہ نیکی کا رَسْتہ اپنائے کیونکہ نیکی پر جو اُسے ثواب ملے گا، نیکی کے صِلے میں جو اُسے دُنیاوی نعمتیں ملیں گی، اُخْروِی اِنْعامات نصیب ہوں گے، اُن میں بہتری ہے۔
میں مثال کے ذریعے اِس کی وضاحت کروں؛ فرض کیجیے! *ہمیں کاروبار چمکانے کی طلب ہے، بندہ چاہ رہا ہے کہ میری آمدن بڑھ جائے، دُکان چل جائے، اب اس کے لیے *لوگ جُھوٹ کا رَسْتہ اَپناتے ہیں *سُودِی لَیْن دین کا رَسْتہ اپناتے ہیں *دھوکا دینے *ناپ تَول میں کمی کا رَسْتہ اپناتے ہیں۔ پِھر نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ کروڑوں کماتے ہیں، پِھر بھی رَوتے پِھرتے ہیں، ہائے! مَر گئے، ہائے! مہنگائی بہت ہو گئی، آہ! پُوری نہیں پڑ رہی۔
جُھوٹ بول کر، ناپ تَول میں کمی کر کے، جھوٹی قسمیں کھا کر، سُودِی لَین دَین کے ذریعے کما بہت لیتے ہیں مگر وہ کمائی کبھی ڈاکٹروں کے پاس جاتی ہے، کبھی ڈاکو چھین کر لے جاتے ہیں، دُکان پر جھوٹ بول کر 5 ہزار کمایا تھا، گھر میں کبھی والدہ بیمار ہو گئیں، کبھی بچہ بیمار، کبھی زوجہ بیمار، کبھی خُود بستر پر درازہو گئے، کمایا 5 تھا، خرچ 30 ہو جاتا ہے۔ یہ نتیجہ پانے کے لیے گُنَاہ کا رستہ ہے *اس کے برعکس کاروبار چمکانا ہے *دُکان چلانی ہے۔ اس کے لیے سچ کا رستہ اپنائیں، اِیْمانداری کا رستہ اپنائیں، ممکن ہے کہ شروع شروع میں زیادہ فائدہ نہ ہو مگر تجربے سے یہ بات ثابِت ہے جو بندہ سچ اور ایمانداری کے ذریعے کاروبار کرتا ہے، ایک وقت آتا ہے کہ وہی بندہ پُورے شہر میں برانڈ(Brand) بن جاتا ہے، لوگ دُور دُور سے اُس کے پاس آتے ہیں، پُوچھ پُوچھ کر پہنچتے ہیں کہ ہمیں فُلاں کی دُکان کا پتا بتا دو! وہ بندہ سَودا اَچھا دیتا ہے۔ پِھر سچ کی کمائی میں بَرَکت بھی ہوتی ہے، بَرَکت والی کمائی پُوری