$header_html

Book Name:Sawab Kise Kehty Hain?

ہو گیا۔ بادشاہ سلامت نے فرمایا: فُلاں دِن کا روزنامچہ کھولو! تاجِر نے کھولا۔ پڑھنا شروع کیا؛ *اتنے پیسے فُلاں سے لیے، فُلاں جگہ خرچ ہوئے *اتنے فُلاں کو دئیے! *اتنے کا سَوْدا بیچا۔ یُوں وہ تاجِر اس دِن کی آمدن اور خرچ کی تفصیل پڑھتا گیا۔ پڑھتے پڑھتے ایک جگہ پر جا کر بولا: خرچ: ایک چَوَنِّی(4آنے والا سکّہ)۔ نامَعْلُوم شخص کو دی۔

بادشاہ سلامت نے فرمایا: یہ نامعلوم شخص کون ہے؟ یہ سُن کر تاجِر نے ٹھنڈی آہ بھری اور کہا: بادشاہ سلامت وہ کون تھا، میں نہیں جانتا۔ مُعامَلہ یُوں ہوا کہ رات کا وقت تھا، بارِش برس رہی تھی، اچانک میرے گھر کی چھت ٹوٹ گئی۔ رات کے اس پہر مجھے کوئی مَزْدُور بھی نہیں ملنا تھا، بہرحال میں گھر سے باہَر نکلا، مجھے ایک شخص مِلا، میں نے اسے کہا: چھت سَنْوارنے میں میری مدد کر دو۔ بس وہ شخص میرے گھر آیا اور اس نے بڑی محنت کر کے میری چھت سَنْواری، کام کرتے کرتے  فجر کی اذان ہو گئی۔ جونہی فجر کی اذان ہوئی، وہ شخص چلا گیا۔ جاتے جاتے میں نے اسے کہا: بھائی! اس وقت تمہیں دینے کے لیے کچھ نہیں ہے، صِرْف ایک چَوَنِّی ہے۔ یہ لے لَو! باقی مجھے اپنا نام پتا بتا دو، میں تمہیں تمہاری اُجْرت پہنچا دُوں گا۔ اس  اللہ  کے بندے نے کہا: مجھے یہ چَوَنِّی ہی کافی ہے۔ یہ کہہ کر وہ شخص چلا گیا۔ میں اُسے ڈھونڈتا رہا کہ مجھے ملے تو اس کے احسان کا بدلہ چُکاؤں مگر وہ نہ مِل سکا۔

بادشاہ سلامت نے فرمایا: ٹھیک ہے۔ اب تم جا سکتے ہو۔ تاجِر  چلا گیا۔ اب بادشاہ سلامت نے فرمایا: استادِ محترم! وہ مزدور میں خُود تھا۔ وہ چَوَنِّی میں نے خُود اپنے ہاتھ کی محنت سے کمائی تھی، 100 فیصد حلال تھی۔ میں نے وہی چَوَنِّی آپ کو نذرانہ پیش کر دی تھی۔ چونکہ وہ حلال کی تھی، لہٰذا  اللہ  پاک نے اس میں بَرَکت عطا فرما دی۔([1])   


 

 



[1]... ملاّ احمد جیون   امیٹھوی، صفحہ:115 ملخصاً ۔



$footer_html