Book Name:Musbat Soch Ki Barkat

ایسی یادیں ہیں، جنہیں سوچ کر ہم پریشان ہو جاتے ہیں، بعض تو ڈپریشن کا شکار بھی ہو جاتے ہیں، بعضوں کا بلڈ پریشر بھی بڑھ(High) جاتا ہو گا۔ اگر ہم چاہیں تو ہمارا یہ تلخ ماضِی بھی ہمارے لئے سکون و اطمینان بلکہ ثواب ِ آخرت کا ذریعہ بن سکتا ہے، بس اس کے لئے مثبت سوچ اپنانی ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے: کسی مسلمان مرد یا عورت کو کوئی مصیبت پہنچی اور وہ بہت پُرانی ہو گئی (مثلاً کئی سال گزر گئے)، اب دوبارہ کبھی وہ مصیبت یاد آنے پر اِنَّا لِلّٰہ پڑھے تو اللہ پاک اسے وہی ثواب عطا فرمائے گا جو مصیبت آنے کے وقت مِلا تھا۔([1])  

اللہُ اَکْبَر! کیسی پیاری بات ہے، ہمارے ماضِی کی وہ تلخ یادیں، جو ہمیں پریشان کر کے رکھ دیتی ہیں، اگر ہم اچھی سوچ اپنائیں، صبر سے کام لیں، اللہ پاک کی رضا میں راضِی رہنے کا ذہن بنائیں اور حدیث پاک میں بیان کردہ عمل کریں تو جب جب ہمیں وہ تلخ یادیں آئیں گی، اُس اُس وقت ہمارے لئے ثواب کا ذریعہ بنتا چلا جائے گا۔

زندگی سے لفظِ کاش نکال دیجئے!

پیارے اسلامی بھائیو! ہمارے ماضِی کی تلخیوں کا ایک بڑا سبب لفظِ کاش ہے۔ ہم اپنے ماضِی کے مُتَعَلِّق  کاش بہت کہتے ہیں؛ کاش!میں یہ نہ کرتا، کاش!میں وہ نہ کرتا، کاش!یہ نہ ہوتا، کاش!وہ نہ ہوتا، کاش! میں نے یہ کاروبار نہیں، وہ کاروبار کیا ہوتا،  کاش! میں نے یہ ڈپلومہ نہیں، فُلاں ڈپلومہ کیا ہوتا، کاش!میں یہاں نہیں، فُلاں جگہ نوکری کر لیتا وغیرہ۔ یہ جو لفظِ کاش ہے، یہ ہمارے ماضِی،حال اور مستقبل تینوں کو تلخ  بنا دیتا ہے۔ اس لئے اپنی زندگی سے لفظِ کاش نِکال دیجئے! یہ بہت خطرناک لفظ ہے۔ امت کے غمخوار، محبوبِ ربِّ


 

 



[1]...مسندِ امام احمد،جلد:1 ،صفحہ:545،حدیث:1760۔