Book Name:Naik Amal Ke Dunyawi Faiday
ساتھ بھی ہو۔ یہ انداز ہمارے ہاں موجود ہیں۔
اگر ہم اپنے عزیزوں ، رشتے داروں سے ملتے وقت اچھی اچھی نیتیں کرنے کی عادَت ڈال لیں ، مثلاً ہم نِیّت کریں؛ اللہ پاک کی رضا پانے اور ثواب کمانے کے لئے صلہ رحمی کروں گا ، اگر ان کی جانِب سے تکلیف پہنچی تو صبر کرتے ہوئے صلہ رحمی جاری رکھوں گا۔
آپ خود غور فرمائیں؛اگر ہم اپنے بھائیوں ، رشتے داروں وغیرہ سے ملتے وقت یہ نِیّت کر لیں ، پہلے سے ہی نیکی اور اللہ پاک کی رضا پانے کا ذہن بنا لیں تو کیا اب ہمارا ضمیر گوارا کرے گا کہ ہم ان سے متعلق کوئی منفی پہلو سوچیں ، سامنے والے سے لڑائی کریں ، اس کے خِلاف دِل میں بغض و حسد کی کیفیات پالیں ، نہیں... ! ہمارا ضمیر گوارا نہیں کرے گا۔
معلوم ہوا؛ اگر ہم اچھی نیتوں کی عادَت بنا لیں تو اس کی برکت سے ہم حسد ، جلن ، بغض ، شماتت ( کسی کے نقصان پر خوشی کا اظہار کرنے ) ، فضول غموں اور پریشانیوں سے بہت حد تک بچ جائیں گے ، لڑائی جھگڑوں سے بھی اِنْ شَآءَ اللہ الْکَرِیْم ! حفاظت ہو گی اور نتیجۃً معاشرہ امن و سلامتی کا گہوارہ بن جائے گا۔
( 2 ) : نعمت زحمت بننے سے بچ جاتی ہے
ہمیں اس دُنیا میں بہت ساری بھلائیاں ، کامیابیاں ملتی ہیں مگر ہر اچھی دِکھنے والی چیز ، ہر ایک کے حق میں نعمت ہی ہو ، یہ ضروری نہیں ، دُنیوی کامیابی ، مال ، دولت ، صحت ، عہدہ و منصب زحمت بھی بن جاتے ہیں۔دیکھئے ! فرعون بادشاہ تھا ، کیا یہ بادشاہی اس کے حق میں نعمت تھی ؟ نہیں... ! قارُون بہت مالدار تھا ، جتنا مال اس کے پاس تھا ، شاید آج دُنیا میں کسی کے پاس اتنا مال نہ ہو مگر کیا یہ مال و دولت اس کے حق میں نعمت تھی ؟ نہیں... ! ! یہ اس