Book Name:Ala Hazrat Aur Naiki Ki Dawat
کی ساری زِندگی اُمَّت کی اِصْلاح کرتے ہی گزری۔ دِن ہو ، رات ہو ، سفر ہو ، قیام ہو ، آپ لکھ کر ، بول کر ، بیان کے ذریعے ، اَپنے عَمَل کے ذریعے بَس نیکی کی دَعوت عام کرتے ہی رہتے تھے۔ یہاں تک کہ نیکی کی دَعوت دینا ، بُرائی سے مَنع کرنا اعلیٰ حضرت رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ کی فِطْرتِ ثانِیَہ ( یعنی طبیعت کا حصہ ) بن چُکی تھی۔ سیّدی اعلیٰ حضرت رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ کے دُوسرے سَفَرِ حج کا واقعہ ہے ، جُمعَہ کا دِن تھا ، اعلیٰ حضرت رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ جُمعَہ کی نَماز پڑھنے کسی مَسجِد میں پُہنچے ، وَہاں خطیب صاحِب نے دَورانِ خُطبہ ایک جُملہ بولا جو شرعاً دُرُسْت نہیں تھا۔
نہ شہر اپنا ، نہ مُلْک اپنا ، پِھر مسجد ، بھرا مَجْمَع ، خطیب صاحِب خُطبَہ پَڑھ رہے ہیں ، خطیب کا بھی ایک اپنا رُعْب ہوتا ہے ، اَیسے حالات میں آدَمی کو جِھجک تو ہوتی ہے ، بعض دفعہ خوف بھی آتا ہے کہ میں اگر بھرے مَجْمعے میں ٹوک دُوں گا تو لوگ نہ جانے میرے ساتھ کیا رَوِیَّہ ( Behavior ) اپنائیں گے؟ مگر قُربان جائیے ! اعلیٰ حضرت رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ کی طبیعت مُبَارَک ہی ایسی تھی ، بُرائی دیکھنا اور اس پر اِصْلاح نہ کرنا آپ کو گوارا ہی نہیں تھا۔ چُنانچہ جیسے ہی خطیب صاحِب نے خلافِ شریعت جُمْلہ بَوْلا ، سیّدی اعلیٰ حضرت رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ کی زَبان مُبارَک سے بآوازِ بُلند بےساختَہ نکلا : اَللّٰہُمَّ ہٰذَا مُنْکَر یا اللہ ! یہ بُرا ہے۔
یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد اعلیٰ حضرت رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ فرماتے ہیں : حدیثِ پاک میں ہے : جو بُرائی کو دَیکھے اُسے اَپنے ہاتھ سے بدل دے ، اگر اِس کی طاقت نہ ہو تو زَبان سے روکے ، اگر زَبان سے بھی نہ روک سکتا ہو تو دِل میں بُرا جانے اور یہ اِیمان کا ادنیٰ دَرْجَہ ہے۔ ( [1] ) اَلحَمْدُ للہ ! اللہ پاک کی توفیق سے مَیں نے اِس حُکم کی تعمیل درمیانے دَرْجے یعنی زَبان