Book Name:Sultan ul Hind Khawaja Ghareeb Nawaz
کر میں کہاں جاؤں گا..! اَے مُعِیْنُ الدِّین! میری مدد فرمائیے!
دولتِ عاصِیہ کا وزیر اعظم راجہ سرکِشَن پرشاد 1924 میں بارگاہِ خواجہ میں حاضِر ہوا اور اپنے ہاتھوں سے مورچَھل (مور کے پروں سے بنا ہوا بڑا سا ہاتھ کا پنکھا) جھلنے کی خدمت انجام دی۔ راجہ پَرشاد شاعِر بھی تھا ، جب اسے دربارِ خواجہ پر خدمت کا موقعہ ملا تو اس نے خواجہ صاحب رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کی شان میں اشعار کہے ، لکھتا ہے :
جھکتے ہیں شاہوں کے سَرخواجہ کی وہ سرکار ہے ہیں ملک دربان وہ شاہِ چِشْت کا دربار ہے
راجہ پرشاد کو دربار شریف پر مَوْرچَھل جھلنے کی خدمت ملی ، اس کے متعلق لکھتا ہے :
مَوْرچَھل جھلنے کی خدمت مل گئی شاد کو دنیا کی عزت مل گئی
بارگاہِ خواجۂ اجمیر سے لو کلیدِ گنج قسمت مل گئی
اس کے عِلاوہ شہزادہ دَارَا شُکُوْہ ، سلطان غیاث الدین ، سلطان مانڈو ، شہزادہ شُجاع ، شہزادہ فَرُّخ اور دیگر کئی شاہانِ وقت ، ہند کے سلطان وحکمران اپنے اپنے دورِ حکومت میں خواجہ غریب نواز رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کے دربارِ عالی شان میں حاضِری دے کر زبانِ حال سے یہ اقرار کرتے رہے کہ ہند کے تخت پر چاہے کوئی بھی بیٹھے لیکن حقیقت میں ہند کے سلطان خواجہ غریب نواز رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ ہی ہیں۔
وہ ہند کے راجہ ہیں ، میں اُن کا بھکاری ہوں خالی میں چلا جاؤں ، کب اُن کو گوارا ہے
صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد
خواجہ غریب نواز رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کی غریب نوازیاں
پیارے اسلامی بھائیو! خِدْمَتِ خَلْق (social welfare) عظیم نیکی ہے۔ ماشَآءَ اللہ!