Book Name:Ghareeb Faiday Main Hai

کرنےکےباوجودکبھی حرفِ شکایت زبان پر نہ لائے۔ کبھی بھی گِلہ  شِکْوہ  نہیں  کیا ، بلکہ ہرحال میں ربِّ کریم کا شکر ادا کرتے رہے ، مگر افسوس!فی زمانہ بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے ان کی عادت ہوتی ہےکہ وہ بات بات پر شکوے وشکایات کےانبار لگادیتےہیں ، کبھی دوسروں کوخواہ مخواہ اپنے دُکھڑے سناتےہیں توکبھی پریشانیوں کا رونا روتےہیں ، کبھی تنگدستی کی شکایات کرتے ہیں توکبھی  غربت  کی وجہ سے گِلہ  شِکْوہ کرتے نظرآتے ہیں۔ الغرض  ایسے لوگ کسی حال میں خوش نہیں رہتے ۔

شکوہ کرنے والے کی اِصلاح

                             منقول ہے : کسی شخص نےایک بزرگ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ  سے اپنی تنگدستی کا شکوہ کیا اور اس سے ہونے والےرنج وغم کااظہار کیا تو ان بزرگ  رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ  نےاس  شخص سے پوچھا : کیا تمہیں 10ہزار درہم  کے بدلے اندھا ہونا قبول  ہے؟ اس نےعرض کی : نہیں ۔ پوچھا : کیا تمہیں  10ہزار درہم کے بدلےگونگا ہونا قبول ہے؟ اس نےعرض کی : نہیں۔ پوچھا : کیا تمہیں 20 ہزار درہم  کے بدلے دونوں ہاتھ اور پاؤں کٹوانا قبول ہے؟ اس نےعرض کی : نہیں۔ پوچھا : کیاتمہیں 10ہزار درہم  کے بدلے پاگل ہونا قبول ہے ؟اس نےعرض کی : نہیں۔ تب انہوں نے فرمایا : تمہیں حیا نہیں آتی کہ پچاس ہزار (50000) کا سامان ہونےکے باوُجود اپنے پاک پروردگارکی شکایت کررہے ہو؟([1])

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                            صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمّد

پیارے پیارےاسلامی بھائیو!واقعیاگر ہم اپنی ذات میں غور و


 

 



[1]   احیاء العلوم ، كتاب الصبر والشكر ، بیان السبب الصارف للخلق عن الشکر ، ۴ / ۱۵۲