Book Name:Huqooq Ul Ibaad Ki Ahmiyat

سامنے رُسوائی ہو ، لہٰذاعاجز بن کر فوراَ معافی مانگ لینے ہی میں دین ودنیا کی بھلائی ہے ورنہ  آخرت میں اپنی نیکیاں دینی پڑجائیں گی۔ اگر نیکیاں نہ ہوئیں تو مظلوم کے گناہوں کا بوجھ بھی اٹھانا پڑےگا جیساکہ

نبیوں کےسردار ، مدینےکےتاجدار صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےصَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے ارشاد فرمایا : کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ صَحابۂ کرامعَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نےعرض کی : ہم میں مفلس(یعنی غریب مسکین)وہ ہے جس کے پاس نہ دِرہم ہوں اور نہ ہی کوئی مال۔ ارشادفرمایا : میری اُمّت میں مُفلِس وہ ہے جو قِیامت کے دن نَماز ، روزہ اور زکوٰۃ لے کر آئے گا لیکن اس نے فُلاں کوگالی دی ہوگی ، فُلاں پر تہمت لگائی ہو گی ، فُلاں کا مال کھایا ہو گا ، فُلاں کا خون بہایا ہو گا اورفُلاں کو مارا ہو گا۔ پس اس کی نیکیوں میں سے ان سب کو ان کاحصّہ دے دیا جائے گا۔ اگر اس کے ذمّے آنے والے حُقُوق کے پورا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو لوگوں کے گناہ اس پر ڈال دیئے جائیں گے ، پھر اسے جہنَّم میں پھینک دیا جائے گا۔ ( مُسلِم ، ص ۱۳۹۴ ، حدیث : ۲۵۸۱)

مظلوم اور دُکھیارے فائدے میں!

پیارے پیارےاسلامی بھائیو!بندوں کی حق تَلَفی آخرت کیلئے بَہُت زِیادہ نُقصان دِہ ہے ، چنانچہ

حضرتِ سَیِّدُنا شیخ ابوطالب محمد بن علی مکی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِعَلَیْہ میں فرماتے ہیں : زِیادہ تَر (اپنے نہیں بلکہ) دوسروں کےگُناہ ہی دوزخ میں داخِلے کا باعِث ہوں گے جو(حُقُوقُ العِباد تَلَف کرنے کے سبب) انسان پر ڈال دئیے جائیں گے۔ نیز بے شُمار اَفْراد (اپنی نیکیوں کے سبب نہیں بلکہ) دوسروں کی نیکیاں حاصِل کرکے جنَّت میں داخِل ہوجائیں گے۔ (قُوتُ القُلُوب ، ۲ / ۲۹۲) ظاہر ہے دوسروں کی نیکیاں حاصل کرنے والے وہی ہوں گے جن کی دُنیا میں دل آزاریاں اور حق تلفیاں ہوئی ہوں گی ، یُوں بروزِ قیامت مظلوم