Book Name:Huqooq Ul Ibaad Ki Ahmiyat

سکتی ہے اور اگر کوئی اس کی اَدائیگی میں کوتاہی سے کام لے تو دُنیا وآخرت دونوں ہی برباد ہوسکتی ہیں۔ لہٰذا کسی بھی ذی شعور شَخْص  سے اس کی اَہمیَّت ڈھکی چھپی  نہیں ۔ حُقُوقُ الْعِباد اَدا کرنے کی عادت کس طرح بنائی جائے۔ آئیے! اس کے چند طریقے  بھی سُنتے ہیں :

حقوق کا علم حاصل کیجئے

   ((1سب سے پہلے حُقُوقُ الْعِباد کا علم حاصل کیجئے ، کسی بھی چیز کی صحیح معلومات کے بغیر اس پر عمل پیرا ہونا تقریباً ناممکن ہے ، افسوس! ہمارے مُعاشرے کی اکثریت چونکہ حُقُوقُ الْعِباد سے ہی ناواقف ہے تو ان کی اَدائیگی سے بھی کوسوں دُور ہے۔ حُقُوقُ الْعِباد کے مُتَعَلِّق تفصیلی معلومات کے لیےمکتبۃُ المدینہ کی کتب’’اِحْیاءُالعُلُوم (جلد 2)‘‘ ، ’’ظُلم کا اَنْجام ‘‘اور ’’والدین ، زَوجین اور اَساتذہ کے  حقوق‘‘  کا مُطالَعہ بہت مفید رہے گا۔

ہمیشہ مثبت سوچئے

   ((2صاحبِ حق کیلئےمَنْفی سوچ کو دل ودماغ میں جگہ دینے اوراس کےناپسندیدہ اَوصاف یاد کرنےکے بجائے اس کے مُتَعَلِّق مثبت سوچ قائم کیجئے اور اس کےاچھے اوصاف کو یادرکھئے۔

منقول ہے : ایک شَخْص اپنی بیوی کی شکایت کرنے کے لئے حَضرتِ سَیِّدُنا عمرِ فارُوقِ اعظمرَضِیَ اللہُ عَنْہ کے پاس پہنچا ، دروازے پر پہنچ کر اس نے اَمِیْرُالمؤمنین رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی زوجہ کی بلند آواز سےگفتگو سُنی تویہ کہتے ہوئے لوٹ گیا کہ اَمِیْرُ المؤمنینرَضِیَ اللہُ عَنْہُ تو خوداس مسئلے کا شکار ہیں۔ بعد میں اَمِیْرُ المؤمنین رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے اسے بُلوا کر آنے (اور پھرلوٹ جانے)کی وجہ پوچھی ، اس نے مکمل واقعہ عرض کیا