Book Name:Dunya Ne Hame Kiya Diya ?

حاصل نہیں ہوتی، کیا  ہم بسترِ علالت پر سسکتے مریضوں سے سبق حاصل نہیں کرتے؟کیا ہم نزع کی سختیاں سہہ سکیں گے؟کیا ہم تنگ و تاریک قبر کو بُھول گئے؟کیا ہم نے قبر کے سانپ بچھوؤں اور کیڑے مکوڑوں سے نجات کا سامان کرلیا؟کیاہم مُنکرنکیر کےسوالات کےجوابات دینے کی تیاری کر چکے ہیں؟کیا قیامت کے دن کےحساب  وکتاب کی تیاری ہم کر چکے ہیں ؟بہرحال عافیت اسی میں ہے کہ ہم  نے جتنا دنیا میں رہنا ہے اُتنا دنیا کیلئے اور جتنا عرصہ  قبر وآخرت کا ہے، اُتنی قبر وآخرت کی تیاری میں مشغول رہیں ،کئی ہنستے بولتے انسان اچانک موت کا شکار ہوکر دیکھتے ہی دیکھتے اندھیری قبر میں پہنچ جاتے ہیں، اِسی طرح ہمیں بھی مرنا پڑے گا، اَندھیری قبر میں اُترنا پڑے گا اور اپنی کرنی کا پھل بُھگتنا پڑے گا۔

امیرِ اہلسنّت حضرت علامہ مولانا محمدالیاس عطارؔقادِری دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ  نصیحت کے مدنی پھول عطا فرماتے ہیں:

تُو خوشی کے پُھول لے گا کب تلک؟         تُو یہاں زندہ رہے گا کب تلک؟

دولتِ دُنیا کے پیچھے تُو نہ جا             آخرت میں مال کا ہے کام کیا؟

مالِ دنیا دوجہاں میں ہے وبال       کام آئے گا نہ پیشِ ذُوالجلال

(وسائلِ بخشش مُرَمَّمْ،ص۷۰۹-۷۱۰)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                          صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

شیطان کا جال:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دُنیا کی مَحَبَّت شیطان  کاایسا جال ہےکہ  اس میں پھنس کر انسان نیک کاموں سے دُور ہوتاچلا جاتا ہے،مثلاً پہلے تو مستحبّات سے دُور ہوتا ہے،پھر سُنَّتوں سے غافل ہوتا ہے، اس کے بعد فرائض و واجبات  چھوڑنےکی عادت بنتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ حرام کاموں  کا عادی بن جاتا  ہے۔نمازیں چھوڑ نے کا معمول بن جاتا ہے،جھوٹ بولنے، غیبت کرنے، دوسروں کا دل دُکھانے، گانے