Book Name:Dunya Ne Hame Kiya Diya ?

(تفسیر قرطبی ،۱/۳۴۶، ملتقطا)

میں کم کھانا کھانے کی عادت بناؤں       خدایا کرم! استقامت بھی پاؤں

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                            صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

دنیا اور آخرت

میٹھےمیٹھےاسلامی بھائیو!یہ ایک سچی حقیقت ہے کہ ہمیشہ باقی رہنے والی آخرت کے مُقابلے میں دنیا بہت جلد ختم ہوجانے والی ہے،دُنیا کا طلبگار بظاہر اس دنیا کے حُصُول پر بہت خوش ہوتا ہے،اس سے لمبی لمبی اُمیدیں وابستہ کرلیتا ہے، اس کی رنگینیوں میں گم ہوجاتا ہے مگر جب ہوش آتا ہے تو ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے۔ دُنیا میں رہ کر جو آخرت کی بہتری کی کوششیں کرتا ہےاس کی دنیا بھی اچھی ہوتی ہےاور آخرت بھی سنورتی ہے جبکہ دُنیا میں رہ کر صرف دُنیا کمانے والا آخرت کے فَوائد و ثمرات سے محروم ہو جاتا ہے۔ دُنیا کی رنگینیوں میں کھونے والا شیطان کو پیارا لگتا ہے جبکہ آخرت کی تیاری کرنے والااللہ کریم کا محبوب  بنتا ہے۔دنیا  کا راستہ بظاہر نَفْسانی خواہشات و لمبی اُمیدوں کی وجہ سے آسان نظر آتا ہے لیکن اس کا  اَنْجام  بہت بُرا ہے، آخرت کا راستہ بظاہر مشکل و دُشوار نظر آتا ہے لیکن اس کی منزل جنَّت کا خوبصورت اور  ہمیشہ رہنے والا مقام ہے۔چونکہ دنیاآخرت کے مقابلے میں ہمارے بہت قریب ہے، لہٰذااس کی طرف دل بہت جلد مائل ہوجاتا ہے جبکہ آخرت دُنیا کے بعد  ہے،اس لیے اس سے غفلت بَرتی جاتی ہے ۔

یاد رکھئے! دنیا کو دنیا کہنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ دنیا آخرت کے مُقابلے میں ہم سے زیادہ قریب ہے ، چنانچہ

دنیا  کو دنیاکیوں کہتے ہیں؟

شیخِ طریقت،امیرِ اہلسُنَّت،بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابُو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ اپنی تصنیف”نیکی کی دعوت“کے صفحہ نمبر260 پر نقل فرماتے ہیں: