Book Name:Dunya Ne Hame Kiya Diya ?

میں ہاویہ میں ایک بال سے لٹکا ہوا  ہوں، میں نہیں جانتا کہ مجھے آگ میں گِرا دیا جائے گا یا پھر میں نجات پا لوں گا۔آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے حواریوں سے ارشاد فرمایا: میں سچ کہتا ہوں جو کی روٹی کھانا، صاف ستھرا پانی پینا اور کُوڑا دانوں پر کُتّوں کے ساتھ سونا دنیا وآخرت کی بھلائی کے لیےیقیناً کافی ہے۔

 (حلیۃ الاولیاء ،وھب بن منبہ،۴ / ۶۴،رقم: ۴۷۶۲)

بے وفا دنیا پہ مت کر اِعتبار        تُو اچانک موت کا ہوگا شکار

موت آکر ہی رہے گی یاد رکھ!           جان جا کر ہی رہے گی یاد رکھ!

گر جہاں میں سو برس تُو جی بھی لے       قبر میں تنہا قیامت تک رہے

(وسائلِ بخشش مُرَمَّمْ،ص۷۱۱)

  صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                     صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!بیان کردہ لرزہ خیز حکایت میں دنیا سے مَحَبَّت کرنے والوں کیلئے نصیحت و عبرت کے کئی مدنی پُھول مَوْجُود   ہیں۔افسوس!جیسے جیسے ہم زمانَۂ رسالت سے دُور ہوتے جارہے ہیں ہمارے دلوں میں فانی دُنیا اور مال و دولت کی مَحَبَّت کی جڑیں مضبوط تَر ہوتی جارہی ہیں۔ جسے دیکھو وہ دنیا کے پیچھے آنکھیں بند کئے دوڑا  چلا جارہا ہے،کثیردولت،کئی جائیدادیں، زمینیں، فیکٹریاں، ہوٹل، پیٹرول پمپس،شاپنگ مالز،مارکیٹیں،پلازے،بنگلے اور عالیشان گاڑیاں ہونے کے بعد  انسان کی حرص (Greed)  ختم ہونے کا نام نہیں  لیتی،اگر کوئی دَرْدْمند عاشقِ رسول ایسوں کو نیکی کی دعوت پیش کرے تو اسے یہ کہہ کر جھڑک دیا جاتا ہے کہ دُنیا اسی کی عزّت کرتی ہے، جس کے پاس دولت ہو، دولت مند ہی کامیاب ہوتا ہےوغیرہ وغیرہ۔ہم غورکریں کہ  کہیں ہم دنیا سے مَحَبَّت کرنے والوں  کے عبرت ناک انجام سے غافل تو نہیں ہو گئے ؟کیا ہمیں ہمیشہ اس دُنیا میں رہنا ہے؟کیا ہمیں مغفرت کا پروانہ مل چکا ہے؟کیا ہم پچھلی اُمَّتوں پر آنے والے عذابات کو بُھول گئے؟کیا ہمیں روزانہ اُٹھتے جنازوں سے عبرت