Book Name:Dil ki Sakhti

پہلا نقصان:

       دل کی سختی کا ایک نقصان یہ ہے کہ بندہ گناہوں پردلیر ہوجاتا ہے،اسے وحشتِ قبر، خوفِ قیامت،حسابِ آخرت اور عذابِ جہنم کی کوئی فکر نہیں ہوتی، ہر طرح کی نصیحت سے بے پروا ہونے کے ساتھ ساتھ ایسا اِنْسان بےباک اور منہ پھٹ ہوجاتا ہے، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بعض اوقات  ایسا اِنْسان اللہ عَزَّوَجَلَّاوراس کے مَدَنی حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں گستاخی کرکےایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ مُفَسّرِشہیر،حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمدیارخان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں: جو شخص زَبان کا بے باک ہوکہ ہر بُری بھلی بات بے دھڑک منہ سے نکال دے تو سمجھ لو کہ اس کا دل سخت ہے اس میں حیا نہیں ۔سختی وہ درخت ہے جس کی جڑ انسان کے دل میں ہے اور اس کی شاخ دوزخ میں۔ ایسے بے دھڑک انسان کا انجام یہ ہو تا ہے کہ وہ اللہ  عَزَّ  وَجَلَّ   و رَسُولُاللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں بھی بے ادب ہو کر کافر ہو جا تا ہے۔(مراٰۃ ج ۶ ص ۶۴۱)

مسلماں ہے عطاؔر تیری عطا سے

ہو ایمان پر خاتمہ یا اِلٰہی

(وسائلِ بخشش مُرمّم،ص105)

صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

دوسرا نقصان:

       دل کی سختی کا نقصان یہ بھی  ہے کہ بندہ اللہعَزَّ  وَجَلَّ  کی عبادت،قرآن ِپاک کی تلاوت اورنیک  اعمال  سے بھی  محروم ہوجاتاہے حالانکہ  ہماری زندگی کا مقصد ہی اللہ عَزَّ  وَجَلَّ   کی عبادت  اور نیک اعمال کی طرف  رغبت رکھنا ہے ۔چنانچہ اِرْشادِ باری تَعَالٰی ہے: