Book Name:Riyakari ki Tabahkariyan

روزوں،نوافِل،دُرُود شریف کی کثرت وغیرہ کااِس لئے اظہار کرنا کہ واہ واہ ہو اور لوگوں کے دلوں میں احتِرام پیدا ہو۔(19)دوسروں کی مَوجُودَگی میں اِس لئے چُپ چاپ رہنا یا اِشارے سے یا لکھ کر گُفتگو کرنا کہ لوگ سنجیدہ،خاموش طبیعت اورزَبان کا قُفلِ مدینہ لگا نے والا تصوُّر کریں۔جبکہ گھر میں اور بے تکلُّف دوستوں میں خُوب قہقہے لگاتا اور شیرِ بَبَّر کی طرح دَہاڑتا یعنی چیختا ہو۔

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                   صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّدٍ

رِیا کی تعریف اورمثالوں پر غور کیجئے

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! بیان کردہ مثالوں کو ذِہْن میں رکھتے ہوئے رِیا کاری کی تعریف پر ایک بار پھر نظر ڈال لیجئے۔کہ” اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کی رِضا کے عِلاوہ کسی اور اِرادے سے عِبادت کرنا، ریاکاری کہلاتا ہے۔ گویا لوگوں پر اپنی عِبادت گُزاری کی دَھاک بِٹھانا،اپنی تعریف،واہ واہ اور عزّت چاہنا یا اُ س نیک کام سے سُوٹ پیس،یا رَقْم کالِفافہ یا کھانا یا مِٹھائی یا کسی قسم کے نَذرانے کا حُصُول مقصود ہونا یہ سب رِیاکاری  کی ہی صُورتیں ہیں۔نیز پیش کردہ مثالوں میں’’حُبِّ جاہ ‘‘یعنی’’ شُہْرت و عِزَّت کی خواہش کرنا ‘‘ بھی مَوْجُود  ہے۔کیوں کہ رِیاکاری کا ایک بَہُت بڑا سبب ’’حُبِّ جاہ ‘‘ بھی ہے۔ اس سے بھی بچنا اَزْ حد ضَروری ہے اوریہ  بھی یاد رکھئیے! کہ رِیا کاری کی یہ تمام مثالیں اس لیے بیان کی گئی ہیں کہ ہم خُود اپنے اعمال کا مُحَاسَبَہ  کرلیں ۔ ان مثالوں کو بَیان  کرنے کا ہرگزیہ مَقْصَدنہیں کہ ہم ان مثالوں کو بُنیاد بنا کر کسی دوسرے کو رِیاکارکہتے پھریں۔ کیونکہ رِیاکاری کا تعلُّق دل سے ہے اور کسی کے دل کے حالات پرہر کوئی مُطَّلع نہیں ہوسکتا۔لہٰذا اِن مثالوں پر قِیاس کر تے ہوئے کسی مُسلمان پر بدگُمانی نہ کی جائے،کیونکہ بدگُمانی بذاتِ خُود حرام اور جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے اوراِسی طرح کسی کے بارے میں تَجسُّس یعنی گُناہ کی تلاش کرنا،اس کی پردہ دَرِی یعنی عَیْب کھولنااوراُس میں رِیاکاری کی عَلامات