Book Name:Riyakari ki Tabahkariyan

مانگتا ہے۔اس لیے بہتری اسی میں ہے کہ اَعمال کرتے ہوۓ  دوسروں کی رِضا پرنظر رکھنے کی بجاۓ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی رِضا پر ہی نظر رکھی جاۓ  اور اگرکوئی شخص شیطان کی باتوں اور نَفْسِ اَمَّارَہکی چالوں میں آکر رِیاکاری میں مبتلا ہوجائے اور یہ سمجھ بیٹھے کہ  رِیا سے بچنا تو بہت مُشکل ہے، میں کس طرح نَفْسِ اَمَّارَہکی چال کو ناکام بناؤں ؟میں کس طرح شیطان کے مَضْبُوط جال کو توڑ کر باہر آؤں ؟اور پھر بعض اَوْقات ایسے اَفْراد اِس خیال کو اپنے ذِہْن میں بٹھالیتے ہیں  کہ   جب ہم رِیاکاری کے بغیر نیک اَعمال نہیں کرسکتے تو ایسے اعمال کرنے کا کیا فائدہ؟یوں آہستہ آہستہ نیک اعمال سے دُور ہوتے جاتے ہیں اور خُوش بختی اور سَعادَت مَنْدِی سے مُنہ موڑ لیتے ہیں۔ تو ایسے اسلامی بھائیوں کی خِدْمت میں مَدَنی اِلتجاء ہے کہ اگراپنا مُحَاسَبَہ  کرتے ہوئےریاکاری ظاہر ہو تو اُس کا علاج کریں، کیونکہ کسی بھی مَرض کو لاعِلاج سمجھ کر اس سے بے پرواہی برتنا ، عقلمندی کا تَقاضا نہیں بلکہ جو مَرض جس شِدّت سے بڑھے، اس کے علاج میں بھی اُتنا ہی اِہتمام کیا جاتا ہے۔چونکہ رِیا کاری بھی ایک باطنی بیماری ہے، لہٰذا اس کاعلاج کرنا ہی مُناسِب ہے نہ کہ اس کو لاعِلاج سمجھ کے چھوڑ دیا جاۓ،کیونکہ اگر مکھی، ناک پر بیٹھ جائے تو مکھی کو اُڑایا جاتا ہے،ناک نہیں کاٹی جاتی ۔ اس لئے رِیاکاری کے ڈر سے نیک اعمال کو تَرک نہ کیا جائے بلکہ رِیاکاری سے پیچھا چُھڑانے کی کوشش کی جائے ۔چُنانچہ،

 ریاکاری کا حکم

مُفَسِّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مُفْتی احمدیار خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّانرِیاکاری کا حکم بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں:خیال رہے کہ رِیا سے عِبادت ناجائز نہیں ہوجاتی(یعنی ایسا نہیں کہ رِیا کاری سے نَماز پڑھی تو اُسے ترکِ نَماز سمجھا جائے)بلکہ نامقبول ہونے کا اَندیشہ ہوتا ہے،اگر رِیا کار آخر میں رِیا سے(سچی)توبہ کرےتو اس پر رِیا کی عبادت کی قَضا واجِب نہیں،بلکہ اُس توبہ کی بَرَکت سے گُزشتہ نامقبول رِیا کی عبادات