Book Name:Riyakari ki Tabahkariyan

a

الْعُلُوم “جلد 3 صفحہ 890 پر حُجَّۃُ  الْاِسْلَام  حضرت سَیِّدُنا امام محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِالوَالِی فرماتے ہیں کہ حضرت سَیِّدُناقتادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:”جب بندہ ریاکاری کرتا ہے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ  فِرِشتوں سے فرماتا ہے: اِسے دیکھو یہ میرے ساتھ مَذاق کر رہا ہے۔“ اسے آپ مثال سے یُوں سمجھیں کہ کوئی خادِم پورا دن بادشاہ کے دربار میں اُس کے سامنے رہتا ہے، جیسا کہ خادِموں کی عادت ہوتی ہے، لیکن اس ٹھہرنے میں اس کا مَقْصد بادشاہ کی کسی لونڈی یا غُلام کو دیکھنا ہے،تو یہ بادشاہ کے ساتھ مذاق ہے ،کیونکہ اُس نے بادشاہ کا قُرب، اُس کی خِدْمت کے لئے نہیں ،بلکہ اُس کے غُلام کے لئے اِخْتیار کیا ہے،لہٰذا اس سے بڑھ کر (قابِلِ)حَقارت (بات) کیا ہوگی کہ بندہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی عِبادَت ایک ایسے کمزور و ناتواں بندے کو دِکھانے کے لئے کرے جو (ذاتی طور پر) اس کے کسی نَفْع و نُقصان کا مالک نہ ہو۔  (اِحیاءُ الْعُلوم ج۳،ص۸۹۰)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یقیناً رِیا کاری کا مَرَض انتہائی مُہلک ہے اور اس سے بچنا بے حد ضَروری ہے، لہٰذا کسی بھی نیک عمل سے پہلے دل کے اِرادے پر خُوب غور کرلینا چاہیئے ،کہیں ایسا نہ ہو کہ رِیاکاری کے سبب وہ عمل کسی کام نہ آئے۔آیئے ”رِیاکاری“ کی تعریف سُنتے ہیں تاکہ اِس کی اچھی طرح پہچان حاصل ہوجائے اور اس سے بچنے میں بھی آسانی ملے ۔ چُنانچہ،

”رِیا “کی تعریف  

شیخِ طریقت، اَمیرِ اہلسنَّت ، بانیِ دعوتِ اسلامی، حَضْرتِ علّامہ مَوْلانا ابوبلال محمد الیاس عطّار قادری رَضَوی ضِیائی دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ616 صفحات پر مُشتمل کتاب ”نیکی کی دعوت “ کے صفحہ 66 پر تحریرفرماتے ہیں:اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کی رِضا کے عِلاوہ کسی اور اِرادے سے عِبادت کرنا۔ '' گویا عِبادت سے یہ غَرْض ہو کہ لوگ اُس کی عِبادت پر آگاہ ہوں تاکہ وہ اُن لوگوں سے مال بٹورے یا لوگ اُس کی تعریف