Book Name:Niyyat ki Ahmiyat

عبادَتیں ’’عادَتیں‘‘ بن جا تی ہیں۔ کسی عملِ خیر میں نیَّت کا مطلب یہ ہے کہ جوعمل کیا جا رہاہے دل اس کی طرف مُتَوَجِّہ ہو اور وہ عمل اللہ تعالیٰ کی رِضا کے لئے کیاجا رہا ہو، اس نیَّت سے عبادت اورعادت میں فرق کرنا مقصود ہوتا ہے ۔اس سے پتا چلا کہ دل کا مُتَوَجِّہ ہونا اور اللہ تعالٰی  کی رِضا پیشِ نظر ہونا ہی نیَّت ہے اور اِسی سے عبادت اور عادت میں فرق ہوتا ہے لہٰذا اگر عبادت میں نیّت کرلی جائے تو ثواب ملتا ہے اور اگر نیَّت نہ کی جائے تو عمل عادت بن جاتا ہے اور اس پر ثواب بھی نہیں ملتا جیسا کہ حضرت علّامہ علی قاری علیہ رحمۃ اللہ الباری فرماتے ہیں: اَلنِّیَّۃُ لُغَۃً:اَلْقَصْدُ وَشَرْعاً تَوَجُّہُ الْقَلْبِ نَحْوَالْفِعْلِ ابْتِغَاءً  لِّوَجِّہِ اللّٰہِ وَالْقَصْدُ بِھَا تَمْیِیْزُ الْعِبَادَۃِ عَنِ الْعَادَۃِ۔ یعنی نیّت کے لُغوی معنیٰ ہیں: ’’قصدوارادہ‘‘ اورشرعی معنیٰ ہیں: جو عمل کرنے لگے ہیں،  دل کو اُس کی طرف مُتَوَجِّہ کرنا اور وہ عمل اللہ عزوجل کی رِضا کے لئے کیاجا رہا ہو اور نیَّت سے ’’عبادت ‘‘ اور ’’ عادت‘‘ میں فرق کرنا مقصود ہوتا ہے۔  (مِرقاةُ المفاتیح  ج ۱ ص ۹۴) لیکن اس کے ساتھ یہ یاد رہے کہ بَہُت سے اعمال ایسے ہیں کہ جن میں ہم محسوس کرتے ہیں کہ یہ محض عادت کے طور پر کر رہے ہیں حالانکہ اِس میں بھی ’’عبادت کی نیَّت‘‘ موجود ہوتی ہے اور اس کا اِحساس اِس لئے کم ہو تا ہے کہ ابتِداء ًیا بطور ِ خاص جس قَدَر توجُّہ دی جاتی ہے وہ بارہا عمل کرنے کی وجہ سے برقرار نہیں رہتی ۔ ہاں اگر اَصلاً (یعنی بِالکل )ہی نیَّت کچھ نہ ہو تو اُس پر واقِعی کوئی ثواب نہیں۔وَاللّٰہُ تَعالٰی وَرَسُولُہٗ اَعلَم  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم