نئے لکھاری

رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مسکرانے کے پانچ واقعات

* بنتِ صادق عطّاریہ

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اکتوبر 2021

نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنّتوں میں ایک بہت ہی پیاری سنّت مسکرانا ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے اپنے مسلمان بھائی کو دیکھ کر مسکرانا بھی صدقہ ہے۔ (ترمذی ، 3 / 384 ، حدیث : 1963)

(1)جب کسی کو مسکراتا دیکھیں تو یہ دعا پڑھیئے : اَضْحَکَ اللہُ سِنَّکَ یعنی اللہ پاک آپ کو مسکراتا رکھے۔ جیسا کہ روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ امیرُ المؤمنین حضرت عُمر فاروقِ اعظم  رضی اللہُ عنہ  نے سرکارِ دو عالم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے دربارِ گوہر بار میں حاضر ہونے کی اجازت مانگی اس وقت آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے پاس (ازواجِ مطہرات میں سے )قریشی عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ جو آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے محو گفتگو تھیں زیادہ بخشش کا مطالبہ کر رہی تھیں اور ان کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔ جب حضرت عمر  رضی اللہُ عنہ  نے اجازت مانگی تو وہ جلدی سے اُٹھ کر پردے میں چلی گئیں۔ نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے انہیں اندر آنے کی اجازت دی ، جب یہ اندر داخل ہوئے تو نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  تبسم فرما رہے تھے۔ یہ عرض گزار ہوئے : ا َضْحَکَ اللہُ سِنَّکَ یَارَسُولَ اللہ  (کیا بات ہے؟) آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا : مجھے ان عورتوں پر تعجب ہے جو میرے پاس حاضر تھیں کہ انہوں نے جب تمہاری آواز سنی تو جلدی سے اُٹھ کر پردے میں چلی گئیں۔ (بخاری ، 2 / 403 ، حدیث : 3294 ، ارشاد الساری ، 13 / 118 ، تحت الحدیث : 6085)

(2)حضرت ابو ذر غِفاری  رضی اللہُ عنہ  سے روایت ہے کہ حضور ِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا : ’’میں اُس پہلے شخص کو جانتا ہوں جو جنّت میں داخل ہوگا۔ اُس شخص کو بھی جانتا ہوں جو سب سے آخر میں دوزخ سے نکالا جائے گا۔ قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ اس پراس کے چھوٹے چھوٹے گناہوں کو پیش کرو۔ اس کے بڑے بڑے گناہوں کو ابھی اٹھا رکھو ، وہ اقرار کرے گا ، انکار نہ کرے گا اور اپنے بڑے بڑے گناہوں سے ڈر رہا ہوگا۔ (اللہ پاک کی طرف سے) اس شخص سے کہا جائے گا : جا تجھے ہر گناہ کے بدلے ایک نیکی دی جاتی ہے ، یہ دیکھ کر وہ عرض کرے گا میرے اور بھی بہت سے گناہ ہیں جنہیں میں یہاں نہیں دیکھ رہا۔ ‘‘ حضرت ابوذر  رضی اللہُ عنہ  فرماتے ہیں : میں نے دیکھا حضورِ پاک  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اتنا مسکرائے کہ آپ کی مبارک داڑھیں نظر آنے لگیں۔ (مسلم ، ص101 ، حدیث : 467 ملتقطاً)

(3)ہمارے پیارے نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے کبھی قہقہہ نہیں لگایا بلکہ مسکرایا کرتے تھے ۔ چنانچہ حضرت ابوذر  رضی اللہُ عنہ  فرماتے ہیں کہ ایک بار رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  تشریف فرماتھے ، دو بکریاں ایک دوسرے کو سینگیں مار رہی تھیں ، ایک نے دوسری کو ٹکر مار کر گرا دیا یہ دیکھ کر نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  مسکرا دیئے۔ پوچھا گیا : یا رسولَ اللہ! آپ کس وجہ سے مسکرائے؟ فرمایا : مجھے اس بکری پر تعجب ہوا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! قیامت کے دن اس کا بدلہ ضرور لیا جائے گا۔ ( مسند امام احمد 8 / 120 ، حدیث : 21567)

(4)حضرت امام زہری  رحمۃُ اللہِ علیہ  سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے حضرت حسّان بن ثابت  رضی اللہُ عنہ  سے فرمایا : کیا تم نے ابوبکر کی مدح میں کچھ کہا ہے؟ انہوں نے عرض کی جی ہاں ، حضرت سیدنا حسّان بن ثابت نے شانِ صدّیق اکبر میں ایک رباعی عرض کی :

وَثَانِيَ اثْنَيْنِ فِي الْغَارِ الْمَنِيفِ وَقَدْ

طَافَ الْعَدُوُّ بِهِ إِذْ صَاعَدَ الْجَبَلا

ترجمہ : اے ابوبکر صدیق  رضی اللہُ عنہ آپ اس بابرکت غارِثورمیں ’’ثَانِیَ اثْنَیْن‘‘ یعنی دو میں سے دوسرے تھے جب دشمن نے اس پہاڑ کے گرد چکرلگایا اور اس پرچڑھا۔

وَكَان حُبَّ رَسُولِ اللہ قَدْ عَلِمُوا

مِنَ الْبَرِيَّةِ لَمْ يَعْدِلْ بِهِ بَدَلَا

ترجمہ : اور آپ ہی رسول پاک  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے محبوب ہیں اور سب جانتے ہیں کہ حضور نبیِّ کریم ، رؤفٌ رَّحیم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ساری مخلوق میں کسی کو آپ کا ہم پلہ نہیں سمجھا۔

خَاتَمُ الْمُرْسَلِیْن ، رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یہ سُن کر بہت خوش ہوئے اور اتنا مسکرائے کہ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی مبارک داڑھیں نظرآنے لگیں پھر ارشاد فرمایا : اے حسّان! تونے سچ کہاابوبکر ایسے ہی ہیں ۔ ( مستدرک ، 4 / 7 ، حدیث : 4469 ، جمع الجوامع ، 14 / 61 ، حدیث : 9361 )

(5)حضرت صُہیب  رضی اللہُ عنہ  کہتے ہیں کہ میں نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی خدمت میں حاضر ہوا ، آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے سامنے روٹی اور کھجور رکھی تھی ، آپ نے فرمایا : قریب آؤ اور کھاؤ! میں کھجوریں کھانے لگا تو نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرمانے لگے : تم کھجور کھا رہے ہو حالانکہ تمہاری آنکھ آئی ہوئی ہے؟میں نے عرض کی کہ دوسری جانب سے چَبا رہا ہوں۔ تو رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  مسکرا دیئے ۔ (ابن ماجہ ، 4 / 91 ، حدیث : 3443)

جس کی تسکیں سے روتے ہوئے ہنس پڑیں

اُس تبسّم کی عادت پہ لاکھوں سلام

(حدائق بخشش)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* جامعۃُ المدینہ گلستانِ مصطفےٰ عزیز آباد ، کراچی


Share