Book Name:Khuda Ko Razi Karne Wale Kaam

کے اندر کس قَدَر اِیثار  کا جذبہ تھا کہ ہر ایک اپنے آپ پر دوسرے کو ترجیح دیتا تھا اورآہ! آج حالات بالکل الٹ  ہیں ،  اکثر لوگ اپنے ہی بھائی کا گلا کاٹنے میں مَصْرُوف ہیں ۔ قطبِ مدینہ حضرت مولانا ضیاء الدین رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  تُرکوں کے دَورِ خدمت سے مدینۂ مُنوَّرہ میں رہائش پذیر ہوگئے تھے۔آپ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  کا وِصال شریف 3ذُوا لحِجۃِ الحرام1401ھ مدینۂ مُنوَّرہ میں ہوا اور جنّت البقیع میں دفن ہوئے۔ آپ کی خدمت میں کسی نے عرض کی: حُضور! جب آپ شروع میں مدینہ پاک آئے اُس وقت کے مسلمان کیسے تھے؟ فرمایا:  ایک مالدار  آدمی کثیر مقدار میں مدینہ پاک کے غربا میں کپڑے تقسیم کرنا چاہتا تھا لہٰذا اِس غرض سے ایک کپڑے کے دوکاندار سے اس نے کہا :مجھے فُلاں کپڑے کے اِتنے اِتنے تھان چاہییں ،  دوکاندار نے کہا: جو کپڑا  آپ نے مانگا میرے پاس موجود ہے مگر مہربانی فرما کر آ پ سامنے والی دوکان سے خرید  لیجئے ،  کیونکہ الحمد للہ !آج میری آمدنی ہو چکی ہے مگر اُس بے چارے کا دھند ا آ ج  کم ہوا ہے۔ فرمایا:  کہ پہلے کے مسلمان ایسے اِخلاص واِیثار والے تھے اور آج کے مسلمانوں کو تو آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ ان کی اکثر یت کس طرح مال سمیٹنے اورایک دوسرے کا گلا کاٹنے میں مصروف ہے ۔ ([1])

اپنا کھانا کتّے پر اِیثار کر دیا!

  حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت امام محمد بن محمد غزالی رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہفرماتے ہیں :  منقول ہے،  حضرت عبد اللہ بن جعفر رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ اپنی کسی زمین کو دیکھنے نکلے اور راستے میں   کسی باغ میں اُترے،  وہاں ایک غلام کو کام کرتے دیکھا،  جب اُس کے پاس کھانا آیا تو کہیں سے ایک کُتّا بھی آگیا،  غلام نے ایک ایک کرکے 3روٹیاں اُس کے آگے ڈالیں ،  وہ کھا گیا۔ حضرت عبد اللہ رَحمۃُ اللہِ


 

 



[1]...مدینے کی مچھلی، صفحہ:29، 30