Book Name:Khuda Ko Razi Karne Wale Kaam

ہر کا یہی ذہن تھا کہ میں نہ کھاؤں تاکہ ساتھ والے کا پیٹ بھر جائے ۔ ([1])

اپنی ضَرورت کی چیز دے دینے کی فضیلت

اللہ! اللہ! ہمارے اَسلاف کا جذبۂ اِیثار کس قَدَر حیرت ناک تھا اور آہ!  آج ہمارا جذبۂ حرص وطَمع کہ جب کسی دعوت میں ہوں اورکھانا شروع کیا جائے تو”کھاؤں کھاؤں“ کرتے کھانے پر ایسے ٹوٹ پڑیں کہ  ”کھانا اور چبانا “بھول کر”نگلنا اور پیٹ میں لڑھکانا“ شروع کر دیں کہ کہیں ایسانہ ہوکہ دوسرا تو کھانے میں کا میا ب  ہو جائے اور ہم رہ جائیں !  ہماری حرص کی کیفیت کچھ ایسی ہوتی ہے کہ ہم سے بَن پڑے تو شاید دوسرے کے منہ سے نِوالہ بھی چھین کرنگل جائیں ! ۔ کاش! ہم بھی اِیثار کرنا سیکھیں ۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم

ہمیں بھوکا رہنے کا اَوروں کی خاطر                                             عطا کر دے جذبہ عطا یاالٰہی!

اِیثار کا ثواب مُفت لوٹنے کے نُسخے

کاش! ہمیں بھی اِیثارکاجذبہ نصیب ہو، اگر خَرچ کرنے کو جی نہیں چاہتا تو بِغیر خَرچ کے بھی اِیثارکے کئی مَواقِع مل سکتے ہیں ۔ مَثَلاً * کہیں دعوت پر پہنچے ،  سب کیلئے کھانا لگایا گیاتو ہم عمدہ بوٹیاں وغیرہ اس نیّت سے نہ اُٹھائیں کہ دوسرا اُس کو کھالے * گرمی ہے کمرے یا مسجد کے اندر چند افراد موجود ہیں،خود پنکھے کے نیچے قبضہ جمانے کے بجائے دوسروں کو موقع دے کر * اسی طرح بس یا ریل گاڑی کے اندربھیڑکی صورت میں دوسرے کو اپنی جگہ بٹھا کر * سنّتوں بھرے اِجتِماع وغیرہ میں آرام دِہ جگہ مل جائے تو دوسرے اسلامی بھائی پر جگہ کُشادہ کر کے یا اُسے وہ جگہ پیش کر کے * کھاناکم ہو اورکھانے والے زیادہ ہوں تو خود کم کھا


 

 



[1]...    اتحاف السادۃ المتقین، کتاب ذم البخل...الخ، بیان الایثار و فضلہ، جلد:9، صفحہ:783