Book Name:Ramadan Sudharne Ka Mahina Hai

تھا، اب بندوں کے حقوق کا خیال رکھنے لگا ہے*پہلے کم نیکیاں کرتا تھا، اب زیادہ کرنے لگا ہے۔ غرض کہ ہمارے اندر کوئی تبدیلی آنی چاہئے۔ ہمارے انداز سے، ہمارے کردار (Character) سے، ہمارے طور طریقوں سے پتا چلے کہ رَمضَانُ الْمُبارَک آ چکا ہے۔

ماہِ رَمضَان عام دِنوں سے مختلف رکھئے!

صحابئ رسول حضرت جابِر بن عبد اللہ رَضِیَ اللہُ عنہفرماتے ہیں:لَا تَجْعَلْ یَوْمَ صَوْمِکَ وَ یَوْمَ فِطْرِکَ سَوَاءٌ یعنی تمہارا روزے کا دِن اور بغیر روزے کا دِن، ان دونوں کو ایک جیسا مت رکھو! ([1])

یعنی کوئی تبدیلی ہونی چاہئے، رَمضَان علیحدہ مہینا ہے، باقی سب مہینوں کا سردار ہے *خاص طَور پر رَمضَانُ الْمُبارَک کیلئے جنّت سجائی جاتی ہے*رَمضَان کی پہلی رات عرش کے نیچے سے تازہ ہوا چلتی ہے*رَمضَان آتے ہی جنّت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنّم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں*شیطان کو قید کر دیا جاتا ہے۔ یعنی اس حد تک اس مہینے میں تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں، پِھر ہمارے کردار میں تبدیلی کیوں نہیں آتی...؟ ہمارا اندازِ گفتگو (Way of Talking)کیوں نہیں بدلتا؟ *ہمارے طور طریقوں میں تبدیلی کیوں نہیں ہوتی؟ رَمضَان نشاۃِ ثانیہ (یعنی نئے سِرے سے سنورنے کا) مہینا ہے۔ لہٰذا جب رَمضَانُ الْمُبارَک تشریف لے آئے تو ہمارے کردار سے، گفتار سے پتا چلنا چاہئے کہ رَمضَان تشریف لا چکا ہے۔

رحمت سے محروم رہنے والا بدبخت ہے

حضرت عُبَادہ بن صامِت رَضِیَ اللہُ عنہروایت کرتے ہیں: ایک مرتبہ ماہِ رَمضَانُ


 

 



[1]... زہد لابن مُبارَک، باب ذم الریاء...الخ، صفحہ:160، حدیث:460۔