Book Name:Imam e Jafar رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ Ki Mubarak Adatain

اللہ!اللہ!پیارے اسلامی بھائیو! بڑے لوگوں کی بڑی باتیں ہوتی ہیں...!! اِمام جعفر صادِق رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ اتنی بلند رُتبہ ہستی ہیں، آپ اَہْلِ بیت میں سے ہیں، اپنے وقت کے بہت بڑے اِمام ہیں، بہت بڑے عالِم بھی ہیں، بہت بڑے ولئ کامِل بھی ہیں، اللہ پاک کی بارگاہ میں اتنے مقبول(Popular) ہیں کہ آپ دُعا کر دیں تو اللہ پاک آپ کی مانگ پُوری فرما دیتا ہے،  اس کے باوُجُود آپ کی عاجزی اور خوف کا یہ عالَم ہے کہ ڈرتے ہیں، روزِ قیامت اللہ پاک اور رسولِ خُدا صَلَّی اللہ ُعَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضِری کا خوف دِل میں رکھتے ہیں۔ کاش! ہمیں بھی یہ خوف نصیب ہو جائے...!!

آہ! ہم تو ہیں ہی کس گنتی و شمار میں...!! دِن رات گناہوں میں مَصْرُوف رہتے ہیں، دِن کھیلوں میں گزرتا ہے، رات غفلت کی نیند سوتے رہتے ہیں، نیکیاں نام کو بھی نہیں ہیں، اس کے باوُجُود ہم ڈرتے نہیں ہیں، خَوْف نہیں کھاتے، روزِ قیامت اللہ پاک کی بارگاہ میں حاضِری  ہو گی، ایک ایک لمحے کا حساب لیا جائے گا...!! آہ! کس طرح جواب دے پائیں گے؟

ہو عرصۂ محشر میں مرا چاک نہ پردہ                                                           للہ مجھے دامنِ رحمت میں چھپانا

محشر میں حساب آہ! میں دے ہی نہ سکوں گا     رحمت  نہ  ہوئی،  ہو  گا  جہنّم  میں   ٹھکانا([1])  

صَلُّوا عَلَی الْحَبیب!                                               صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد

دو جنتوں کا حقدار

روایات میں ہے: ایک مرتبہ مسلمانوں کے پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر صِدِّیق رَضِیَ اللہُ عنہ قیامت سے مُتَعَلِّق غور و فِکْر کر رہے تھے، آپ نے آسمان کے لپیٹے جانے، پہاڑوں كے جڑ سے اُکھڑنے (ہوا میں رُوئی کی طرح بکھرنے)، ستاروں کے جھڑنے اور سورج کے تاریک


 

 



[1]... وسائلِ بخشش، صفحہ:354۔