Book Name:Insan Khasary Mein Hai

قبول کر کے اتنا بڑا نقصان اُٹھا لیا ، لات و عُزّٰی (یعنی اَہْلِ مکہ کے جھوٹے خُدا ، جن کی وہ پُوجا کرتے تھے ، ان) کی شفاعت سے نااُمِّید ہو گئے۔

اس بےوقوف یعنی کَلْدَہ بن اُسَید کی بات سُن کر حضرت ابوبکر صِدِّیق رَضِیَ اللہ عنہ نے فرمایا : اے کَلْدہ ! جو بندہ حق کو قبول کرے اور اچھے کام بجا لائے ، بھلا وہ بھی نقصان اُٹھانے والا ہوتا ہے ؟ (یعنی میں جس طرح دُنیوی تجارت میں ماہِر ہوں ، اسی طرح میں نے آخرت کی تجارت میں بھی عقل مندی ہی دکھائی ہے ، میں نے حق بات کو قبول کیا اور اچھے کاموں میں مَصْرُوف ہو گیا ، لہٰذا نقصان اُٹھانے والا میں نہیں ، اَصْل میں تم ہو ، تم ہی گھاٹے کا سودا کر رہے ہو)۔حضرت ابو بکر صِدِّیق رَضِیَ اللہ عنہ کے اس پیارے جواب کی تائید میںسورۂ عَصْرنازِل ہوئی ، ([1]) اللہ پاک نے فرمایا :

وَ الْعَصْرِۙ(۱) اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍۙ(۲) اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ ﳔ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ۠(۳)   (پارہ : 30 ، اَلْعَصْر : 1-3)

ترجمہ کنزُ العِرْفان : زمانے کی قسم بیشک آدمی ضرور خسارے میں ہے مگر جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے اور ایک دوسرے کو حق کی تاکید کی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی۔

پیارے اسلامی بھائیو ! مسلمانوں کے پہلے خلیفہ حضرت ابو بکر صِدِّیق رَضِیَ اللہ عنہ کے پیارے پیارے جواب اور اس پر نازِل ہونے والی سورۂ عَصْر سے معلوم ہوا؛ انسان سارے کے سارے خسارے (یعنی نقصان ) میں ہیں ،  اس نقصان سے بچتا صِرْف وہی ہے ، جس میں یہ 3  صفات ہوں : (1) : صاحِبِ اِیمان ہو کہ جو مؤمن نہیں ، وہ جانوروں  سے بھی بدتَر ہے ، اس نے تو دُنیا میں آنے کا مقصد ہی گنوا دیا ، پِھر وہ نقصان سے کیسے بچ سکتا ہے (2) : نیک عمل کرتا ہو کہ جو نیکیاں نہیں کرتا ، گُنَاہ کماتا ہے ، وہ بھی سخت نقصان میں ہے ، گُنَاہ تو ایک آگ


 

 



[1]...تفسیر عزیزی،پارہ:30،سورۂ عصر،جلد:3،صفحہ:274۔