Book Name:Insan Khasary Mein Hai
خسارے میں رہ جائیں گے۔آہ ! جب ہمیں ہمارے خالِق و مالِک ، ہمیں پالنے والے رَبِّ کریم کی بارگاہ میں کھڑا کیا جائے گا ، تب شرمندگی اور ندامت سے ہماری کیا حالت ہو رہی ہو گی... ! ! اللہ پاک قرآنِ کریم میں فرماتا ہے : جب روزِ قیامت بندے کی بُرائیاں اس کے سامنے رکھی جائیں گی تو
-تَوَدُّ لَوْ اَنَّ بَیْنَهَا وَ بَیْنَهٗۤ اَمَدًۢا بَعِیْدًاؕ- (پارہ : 3 ، آلِ عمران : 30)
ترجمہ کنزُ العِرْفان : تو تمنا کرے گا کہ کاش اس کے درمیان اور اس کے اعمال کے درمیان کوئی دور دراز کی مسافت (حائل)ہو جائے۔
آہ ! آج ہم لذّت لے لے کر بڑے مزے سے جو گُنَاہ کرتے ہیں ، آج جو کہتے ہیں : کیا کریں عادَت چھوٹتی ہی نہیں ہے۔ کل روزِ قیامت خواہش کریں گے کہ کاش ! یہ بُرائی نہ کی ہوتی... ! ! کاش ! میرے اور میرے ان بُرے اعمال کے درمیان لمبا فاصلہ ہو جائے... ! !
علّامہ اِبْنِ جوزی رحمۃُاللہ علیہ لکھتے ہیں : ایک مرتبہ حضرت منصُور بن عمّار رحمۃُاللہ علیہ خلیفہ عبد الملک بن مَرْوان کے پاس تشریف لائے ، خلیفہ نے کہا : اے منصور ! میں آپ کو ایک سال کا وقت دیتا ہوں ، ایک سوال کا جواب تلاش کر کے لائیے ! وہ سوال یہ ہے کہ سب سے زیادہ عقل مند کون ہے ؟ اور سب سے زیادہ جاہِل کون ہے ؟ عبد الملک بن مروان کا سوال سُن کر حضرت منصور بن عمّار رحمۃُاللہ علیہ واپس چل پڑے ، ابھی محل کے دروازے کے قریب ہی پہنچے تھے کہ لوٹ آئے۔ عبد الملک بن مروان بولا : واپس کیوں آ گئے ؟ فرمایا : جواب مل گیا ہے ، وہ یہ کہ سب سے زیادہ عقل مند وہ ہے جو نیکیاں بھی کرے اور