Book Name:Bhook Ke Fazail
کی سَعَادت نصیب ہوئی۔ ان کے لیے ایک بکری کا دُودھ دوہَا گیا اور انہیں پیش کیا گیا۔
سُبْحٰنَ اللہ!کل جو 7 بکریوں کا دُودھ اور سارا کھانا اکیلے کھا گئے تھے، آج صِرْف ایک ہی بکری کے دُودھ سے سَیْر ہو گئے، دوسری بکری کا دُودھ دیا گیا تو انہوں نے ہاتھ کھینچ لیا۔ حضرت اُمِّ اَیْمَن رَضِیَ اللہ عنہ ا جو حُضُور صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم کی خادِمہ ہیں، فرمانے لگیں: یارسولَ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم! یہ وہی کل والا ہی مہمان نہیں ہے؟ آج اتنے کم میں ہی سَیْر ہو گیا ہے؟ فرمایا: کیوں نہیں...؟ یہ وہی ہے۔ آج اس نے مؤمن کی آنت سے کھایا ہے، کل کافِر کی آنت سے کھایا تھا۔ بیشک کافِر سات آنت سے کھاتا ہے اور مؤمن ایک آنت سے کھاتا ہے۔ ([1])
7آنتوں کی وضاحت
اس حدیثِ پاک سے یہ مُراد نہیں کہ مسلمان کی ایک اور کافِر کی 7آنتیں ہوں، ہر شخص کی 7ہی آنتیں ہوتی ہیں۔یہاں اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بَہُت زیادہ کھانا یہ کافِر کا کام ہے۔حُجَّۃُ الْاسلام امام محمد غزالی رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ اسی جیسی ایک حدیثِ پاک کی شرح میں فرماتے ہیں: منافق (یا کافِر) کی کھانے کی حِرْص مؤمن کے مقابلے میں سات گُنَا زیادہ ہوتی ہے۔ ([2])
پیارے اسلامی بھائیو! حدیثِ پاک سے معلوم ہوا؛ کم کھانا مؤمن کی نشانی اور زیادہ کھانا غیر مسلموں کی عَلامت ہے۔
افسوس! آج کل ہمارے ہاں فُوڈ کلچر (Food culture)بہت عام ہے، کھاؤ، پیو، جان