Book Name:Luaab e Pak e Mustafa Ki Barkatein
تھے، آپ صلی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم ، تفتازانی رحمۃُ اللہ علیہ کو دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا: ہمارے بار بار بُلانے پر آپ نہیں آئے؟ علامہ تفتازانی نے عاجِزی کے ساتھ عرض کیا: یارسولَ اللہ صلی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم ! مجھے مَعْلُوم نہیں تھا کہ آپ یاد فرما رہے ہیں؟ آپ تو میری کُند ذِہنی کو جانتے ہیں، یا رسولَ اللہ صلی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم ! میں آپ کی پاک بارگاہ میں شِفَا کا طلب گار ہوں۔ عَلَّامہ تفتازانی رحمۃُ اللہ علیہ کی فریاد سُن کر دریائے رحمت جوش میں آیا، نبی رحمت، شفیعِ اُمّت صلی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: اپنا مُنہ کھولو! عَلَّامہ تفتازانی نے مُنْہ کھولا تو سرکارِ عالی وقار، مکی مَدَنی تاجدار صلی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم نے اپنا لُعاب مبارَک آپ کے منہ میں ڈال دیا اور دُعا بھی فرمائی۔
بس لُعابِ پاک ملنے کی دَیْر تھی، وہ طالِبِ عِلْم جو کُنْد ذہن تھا، اب عالَمِ اسلام کا بہت بڑا عالِم، فاضِل بن چکا تھا۔ دُوسرے دِن جب عَلَّامہ تفتازانی رحمۃُ اللہ علیہ کلاس میں پہنچے تو آپ نے دورانِ سبق استادصاحب سے کچھ علمی سُوالات کیے، آپ کے باریک اور علمی سُوالات سُن کر اُستاد صاحب قاضِی شیرازی رحمۃُ اللہ علیہ نے فرمایا: اے مَسْعُود! آج تم وہ نہیں ہو، جو کل تھے۔ بتاؤ! ماجرا کیا ہے؟ عَلَّامہ تفتازانی رحمۃُ اللہ علیہ نے اُستاد کو سارا واقعہ سُنایا تو استاد محترم رحمۃُ اللہ علیہ اشکبار ہو گئے۔([1])
مِرے تم خواب میں آؤ، مِرے گھر روشنی ہو گی
مِری قسمت جگا جاؤ، عِنایت یہ بڑی ہو گی([2])