Book Name:Imam Shafi Ke Ala Ausaf
دیا۔ عرض کی گئی : آپ نے خاموشی کیوں اختیار فرمائی؟ جواب کیوں نہ دیا؟ فرمایا : میں یہ سوچ رہا تھا کہ جواب دینے میں بھلائی ہے یا خاموش رہنے میں۔ ([1])
مَاشَآءَ اللّٰہ! کیسی حکمت بھری بات ہے ، امام محمدبن محمد غزالی رَحْمَةُ اللّٰهِ عَلَیْه کے فرمان کا خُلاصہ ہے : امام شافعی رَحْمَةُ اللّٰهِ عَلَیْهکے اس مبارک انداز سے 2 باتیں معلوم ہوئیں : ❶ : ایک تَو یہ کہ امام شافعی رَحْمَةُ اللّٰهِ عَلَیْه بولنے سے پہلے تَولا کرتے تھے❷ : دوسرا یہ کہ امام شافعی رَحْمَةُ اللّٰهِ عَلَیْهبولنے میں فضل و ثواب پر نگاہ رکھتے تھے ، اگر بولنے میں بہتری ہوتی ، ثواب کی صُورت بنتی تو کلام فرماتے ، ورنہ خاموش رہا کرتے تھے۔
کاش! ہمیں بھی بولنے سے پہلے تولنے کی عادت نصیب ہو جائے! ورنہ حالت بہت نازُک ہے ، ہماری زبان جب چلتی ہے تو چلتی ہی چلی جاتی ہے ، غیبت ، چغلی ، جھوٹ ، الزام تراشی اور نہ جانے کیسے کیسے گُنَاہ عام گفتگو میں ہو رہے ہوتے ہیں اور ہمیں معلوم تک نہیں ہوتا ، اللہ پاک ہمیں زبان کی حفاظت کی فِکْر نصیب فرمائے۔ ہمارےپیارے آقا ، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ آلِهٖ وَ سَلَّمنے فرمایا : جو مجھے 2 داڑھوں کے درمیان والی اور دو ٹانگوں کے درمیان والی چیز (یعنی زبان اور شرم گاہ) کی ضمانت دے ، میں اسے جنّت کی ضمانت دیتا ہوں۔ ([2])
حکیم الاُمَّت ، مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَةُ اللّٰهِ عَلَیْهاس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : مطلب یہ ہے کہ جو اپنی زبان کو جھوٹ غیبت ، ناجائِز باتیں کرنے سے بچائے ، خُود کو بدکاری کے قریب نہ جانے دے (مالِکِ جنّت ، قاسِمِ نعمت صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ آلِهٖ وَ سَلَّم نے اسے جنّت