Book Name:Azmaish Ki Hikmatain

لِیَبْلُوَنِیْۤ ءَاَشْكُرُ اَمْ اَكْفُرُؕ-  (پارہ : 19 ، سورۂ نمل ، آیت : 40)                                  

ترجمہ کنز الایمان : تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری

معلوم ہوا اِنْعامات کے ذریعے ، نعمتیں دے کر ، خوشیاں دے کر ، مال و دولت دے کر بھی آزمایا جاتا ہے اور اس میں آزمائش کیا ہے؟ یہ دیکھا جاتا ہے کہ بندہ شکر گزار بنتا ہے یا ناشکری کرتا ہے ، کون ہے جو نعمتیں ملنے پر فخر و غرور اور تَکَبُّر کا شِکار ہو جاتا ہے اور کون ہے جو عاجزی و انکساری کرتا ہے ، کون ہے جو نعمتوں کو اپنی طاقت و قُوَّت اور محنت کا نتیجہ قرار دیتا ہے اور کون ان نعمتوں کو محض اللہ پاک کا فضل سمجھتا ہے۔  یہ ہے آزمائش...!

نعمتوں کی کَثْرت سرکش بنا دیتی ہے

عام طَور پر جو رونا رویا جاتا ہے وہ مصیبت اور پریشانی والی آزمائش کا رویا جاتا ہے مگر حقیقت میں دیکھا جائے تو اَصْل آزمائش نعمتیں ملنا ہے کیونکہ نعمتوں کی کثرت ، مال و دولت کی کثرت ، عِزت ، شہرت ، مقام و مرتبہ ، خوشحالی ، یہ تمام چیزیں عام طور پر انسان کو سرکش بنا دیتی ہیں یا کم از کم غفلت کا سبب بنتی ہیں اور آدمی دِن بہ دِن راہِ حق سے دُور ہٹتا چلا جاتا ہے اور بعض نادان تو وہ بھی ہیں جو نعمتوں کی کثرت ، خوشحالی اور مقام و مرتبے کی کی وجہ سے غرور و تَکَبُّر کے ایسے گڑھے میں گرتے ہیں کہ ہمیشہ کے لئے ذلیل و رُسوا ہو کر رِہ جاتے ہیں۔ دیکھ لیجئے! * فرعون کو آزمایا گیا تھا ، کیسے؟ تاج و تخت اور حکومت دے کر مگر یہ بدبخت سرکش ہوا اَور خُدائی کا دعویٰ کرنے لگا *  نمرود کو بھی آزمایا گیا تھا * یزید کو بھی آزمایا گیا تھا ، ان بدبختوں نے ان نعمتوں کا شُکْر ادا نہیں کیا اور سرکش ہو گئے۔ مولانا رُوم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں :