Book Name:Azmaish Ki Hikmatain

پیارے اسلامی بھائیو! اس آیتِ کریمہ میں بتایا گیا کہ اس دُنیا میں ہماری زِندگی سراپا امتحان و آزمائش ہے۔ ہمیں اس دُنیا میں مسلسل آزمایا جاتا رہے گا ، انہی امتحانات سے گزرتے گزرتے آخر ہمیں موت آجائے گی اور ہم اللہ پاک کی طرف پلٹ جائیں گے۔

یہ آتی جاتی ہوئی سانسیں زِندگی کے لئے         اِک امتحان مسلسل ہے آدمی کے لئے

آزمائش کسے کہتے ہیں...؟

اس آیت میں لفظ استعمال ہوا : “ {۔ اس لفظ کا معنی بیان کرتے ہوئے مشہور مفسر قرآن ، حکیم الامّت ، مفتی احمد یار خان نعیمی رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : آزمانے ، جانچنے اور امتحان لینے کو اِبْتِلا کہتے ہیں ، لہٰذا اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ ہم تمہارا اِمْتحان لیں گےیا تم میں سے کھرے کھوٹے کو ظاہِر کریں گے۔ ([1])  یہیں سے یہ بھی ظاہِر ہو گیا کہ اَصْل میں امتحان کا مقام دُنیا ہے ، یہ جو بعض لوگ  کہتے پھرتے ہیں کہ “ مولانا! کیا قبر و آخرت سے ڈراتے ہو؟ جو ہو گا دیکھا جائے گا “ ایسے نادانوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ دیکھنے ، سوچنے ، سمجھنے اور عَمَل کرنے کا مقام دُنیا ہے ، یہیں دیکھا جائے گا ، قبر و آخرت رزلٹ نکلنے کا مقام ہے اور رزلٹ کا صِرْف سامنا کیا جاتا ہے ، رزلٹ اچھا ہو یا بُرا ہو ، اسے قبول ہی کرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا؛

پیشتر مرنے سے کرنا چاہئے               موت کا سامان آخِر موت ہے

ڈاکٹر اقبال کہتا ہے :

یہ گھڑی محشر کی ہے ، تُو عرصۂ محشر میں ہے      پیش کر غافِل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے

غرض؛ ہم جب تک دُنیا میں ہیں ، ہمارا اِمتحان ہو رہا ہے ، گویا ہم کمرۂ امتحان میں


 

 



[1]...تفسیر نعیمی ، پارہ : 2 ، سورۂ بقرہ ، زیرِ آیت : 156 ، جلد : 2 ، صفحہ : 95۔