Book Name:Zulm Ka Anjam

صرف تفریح  کیلئے بیٹھا ہوں کیونکہ  شوقیہ طور پر مچھلی کا شکار  کرنا حرام ہے،جیساکہ

بطور تفریح مچھلی کا شکار کھیلناکیسا؟

          امامِ اہلِسنّت ، مُجدِّدِ دین وملَّت،مولانا شاہ امام احمدرضاخانرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:’’شکار کہ مَحْض شوقیہ بَغَرَضِ تفریح ہو، جیسے ایک قسم کا ’’کھیل‘‘ سمجھا جا تا ہے ۔ وَلِہٰذا ’’شکار کھیلنا ‘‘کہتے ہیں ۔ بندوق کاہو خواہ مچھلی کا، روزانہ ہو خواہ گاہ گاہ (یعنی کبھی کبھی)،مُطْلَقاً بَاتفاق حرام ہے، حلال وہ ہے جو بَغَرَض کھانے یا دوا یا کسی اورنَفْع یا کسی ضَرر کے دَفْعْ کو(یعنی نقصان دُ ورکرنے کیلئے)ہو۔ آج کل کے بڑے بڑے شکا ری(Hunter) جو اتنی ناک والے ہیں کہ بازار سے اپنی خاص ضَرورت کے کھانے یا پہننے کی چیزلانے کو جانا اپنی کسرِ شان سمجھیں یا نَرْم ایسے کہ دس قدم دھوپ میں چل کر مسجد میں نَماز کے لئے حاضِر ہو نا مصیبت جانیں ، وہ گَرْم دوپَہَر،گَرْم لُو میں گرْم ریت پر چلنا اور ٹھہرنا اور گَرْم ہوا کے تَھپیڑے کھانا گوارا کرتے اور دو دو پَہَر بلکہ دو دو دن شکار کے لئے گھر بار چھوڑے پڑے رہتے ہیں ! کیا یہ کھانے کی غَرَض سے جا تے ہیں ! حاشا وَکَلّا!(یعنی ہرگزنہیں)بلکہ وُہی لَہْو و لَعِب (یعنی کھیل تماشا)ہے اور بِالْاتِّفاق حرام ۔ ایک بڑی پہچان یہ ہے کہ ان شکاریوں سے اگر کہئے مَثَلاً: ’’مچھلی،‘‘ بازار میں ملے گی وہاں سے لے لیجئے، ہرگز قَبول نہ کر سکیں گے یا کہئے کہ اپنے پاس سے لا دیتے ہیں ، کبھی نہ مانیں گے بلکہ شکارکے بعد خود اُس کے کھانے سے بھی چَنداں (یعنی کچھ ) غَرَض نہیں رکھتے، بانٹ دیتے ہیں ، تو یہ(شکار کیلئے) جانایقیناً وُہی تفریح و حرام ہے۔(فتاوٰی رضویہ ج۲۰ ص۳۴۱)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                          صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو!  آیئے! اب مختصراً  ظلم کے چند اسباب اور ان کا علاج سُنتے اور اس عادتِ بد سے پیچھا چھڑانے کی نیّت کرتے ہیں ،چنانچہ

ظلم کے انجام سے بے خبر ہونا :