Book Name:Zulm Ka Anjam

صاوی، ہود تحت الآیۃ:۱۰۲، ۳/۹۳۱)

مُعاشرے سے ظُلْم کا خاتمہ کرنے میں دین ِاسلام کا کردار :

میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو! معلوم ہوا کہ جب اللہ  پاک  کسی ظالم کی پکڑ فرماتا ہے تو پھر اس کو  بچانے   والا کوئی نہیں ہوتا ۔یقینا ً ظلم ایک ایسابدترین فعل ہے، جس سے جھگڑے اور فسادات جنم لیتے ہیں ، لوگوں  کی عزّتوں کا تحفظ نہیں رہتا، مُعاشرے کا امن وسکون تباہ ہوجاتاہے،لوگ بغاوت اور سرکشی پر اُتر آتے اور مسلمانوں کے حقوق   ضائع  ہوجاتے  ہیں ۔دینِ اسلام چونکہ انسانی حقوق کا بڑا محافظ اور معاشرے میں  امن  وسکون  قائم  رکھنے والا مذہب (Religion)ہے ۔اسی لئے  اسلام نے  ہر  اس  کام سے  منع کیا ہے  جو بندوں کےحقوق  تَلَفکرنے کا سبب بنتا ہو ۔ان کاموں میں ظلم کا کردارچونکہ  دوسرے افعال کے مقابلے میں  کہیں  زیادہ ہے، اس لئے اسلام نے ظلم کے خاتمے کیلئے بھی انتہائی اِقدامات کئے ہیں  تاکہ لوگوں  کے حقوق محفوظ رہیں  اور وہ امن و سکون کی زندگی بسر کریں  ۔ان میں  سے ایک  اِقدام (Step)یہ ہے کہ جہاں کسی پر  ظلم ہوتا دیکھیں تو اپنی استطاعت کے مطابق ظالم کو  روکنے کی کوشش کریں ، اسے اسلام کی پاکیزہ تعلیمات سے آگاہ کرتے ہوئے ظلم کی وعیدوں پر مشتمل احادیثِ مبارکہ سنائیں   کہ نبی کریم،محبوبِ ربِّ عظیم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا:

(1)اے لوگو! اللہ  پاک  سے ڈرو، خُدا کی قسم! جو مومن دوسرے مومن پر ظلم کرے گا توقیامت کے دن اللہ   پاک اس ظالم سے انتقام لے گا۔(کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، الظلم والغضب، ۲/۲۰۲، الحدیث: ۷۶۲۱، الجزء:۳)

(2)ارشاد فرمایا: جس نے کسی ظالم کی اس کے ظلم پر مدد کی ،وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کی پیشانی پر لکھا ہو گا:’’آیِسٌ مِّنْ رَّحْمَۃِاللہ ‘‘ یعنی یہ اللہ   کریم  کی رحمت سے مایوس ہے۔ (مسند الفردوس، باب المیم، ۲/۲۹۷، الحدیث: ۶۲۳۲)