Book Name:Zulm Ka Anjam

جائے گاجنہوں نے ظالموں کے لئے قلم تراشا  ہو گا یا سیاہی بھری ہوگی تو ان سب کو لوہے کےتابوت میں جمع کر کےجہنم کی آگ میں پھینک دیا جائے گا۔( مسند الفردوس، ۱/ ۱۵۳، حدیث: ۹۹۵،عن ابى هريرة) (المستطرف فی کل فن مستظرف،۱ / ۱۸۸)

بروزِ قیامت  ظلم کا حساب کیسے دیں گے؟

       میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو! دیکھا آپ نے کہ  ہمارے  بُزرگانِ دین دنیاوی عہدہ ومنصب قبول کرنے سے  ڈرتے تھے  کیونکہ  انہیں معلوم تھا کہ جو کسی منصب پر فائز ہوجاتا  ہے، ممکن ہے   وہ کسی  فیصلے میں ناانصافی کر بیٹھے ،کسی کے ساتھ  ظلم کر بیٹھے ، نہ چاہتے ہوئے بھی کسی کی حق  تلفی  کرجائے اور اس کی وجہ سے   اسے بروزِ قیامت    اللہ  کریم کی بارگاہ میں  ذِلّت ورُسوائی کا سامنا کرنا پڑجائے ۔لہٰذا ظلم سے  بچنے کیلئے   ہمیں یہ بات ذہن  میں اچھی طرح بٹھا لینی چاہیے کہ  اگر  آج   میں اپنی شہرت،دولت یا اپنی  طاقت  کے سبب کسی   غریب پر ظلم کروں گا تو دنیا میں  ہوسکتا ہے مجھے کوئی  پکڑ نہ سکے اور مجھے ظلم کی سزا نہ دی جائے مگر مرنے کے بعد  جب میدانِ محشر میں    حساب وکتاب  کا سلسلہ شروع ہوگا  ،اس وقت  کیا کروں گا ؟ کیا اس وقت بھی  مجھے اپنی شہرت کے سبب   حساب وکتاب سے چھٹکار مل جائے گا؟ کیا  اس وقت بھی   دنیاوی شخصیات  سے  تعلقات ہمارے کام آئیں گے ؟ کیا اس وقت جسمانی طاقت  کی بدولت  ہماری رہائی کی صورت بن پائے  گی؟ ہرگز نہیں کیونکہ اس وقت   ہماری دنیاوی  کورٹ نہیں ہوگی جس میں بعض اوقات  کسی بے قصور کو قصور وار ثابت کر کے خود باعزّت بری ہوجاتے ہیں  بلکہ یہ عدالت تو اس مالک ِ کائنات کی ہوگی، جو ساری دنیا کا حقیقی بادشاہ ہے، اُس دن تو چھوٹے سے  چھوٹے  ظلم  اور حق تلفی کا  بھی بدلا لیا جائے گا  مثلاً   دنیا میں کسی کو گالی  دی ہوگی ، بِلااجازتِ شَرعی ڈانٹ  دیا ہوگا ،کسی کی  بے عزّتی کی ہوگی ،کسی کو  ذلیل کیا ہوگا، مار پیٹ کی ہوگی ،عارضی طورپرچیزیں لے کر قصداً واپَس نہ لوٹائی ہوں گی ،کسی کا  قرض دبا کر، دل دُکھا کر اسے ناراض کردیا ہوگا ،آنکھیں دکھا کر ڈرادیا ہوگا ، الغرض  اس دن تو ہر ایک ظلم کا حساب دینا