Book Name:Zulm Ka Anjam

ہوگا،  لہٰذا آخرت  میں حساب دینے سے بہتر ہے، ہم     جیتے جی    دنیا میں ہی ہر ایک سے  ہاتھ جوڑ کر ،اس کے سامنے گِڑ گڑا کر  کی جانے والی زیادتیوں  اور حق تلفیوں کی معافی مانگ لیں   کیونکہ دنیامیں تو معافی تلافی کے ذریعے  کام بن سکتا ہے مگر بروزِ قیامت سوائے حساب دینے کے کوئی صورت نہیں ہوگی۔ جیساکہ ہمارے پیارے آقا،شبِ اسریٰ کے دُولہاصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے  بھی ہمیں اس کی   ترغیب دلائی ہے  چنانچہ

           فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے : جس کے ذِمّے اپنے بھائی کا آبرو وغیرہ کسی بات کا ظُلم ہو، اس پر  لازِم ہے کہ قیامت کادن آنے سے پہلے یہیں دنیا میں اس سےمُعافی مانگ لے ،کیونکہ وہاں نہ دِینار ہوں گے اور نہ دِرْہَم، اگر اس کے پاس کچھ نیکیاں ہوں گی، تو بقَدَر اُس کے حق کے،اِس سے لے کراُسےدی جائیں گی،ورنہ اُس(مظلوم )کے گناہ اِس(ظالم )پررکھے جائیں گے۔(بخاری،کتاب المظالم و الغضب ،باب  من کانے لہ مظلمۃ ۔۔الخ ، ۲/۱۲۸، حدیث :۲۴۴۹ )

          مشہور مفسرِ قرآن،حکیم الامت مفتی احمد یار خان  نعیمیرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ  اگرتم نے دُنیامیں لوگوں کےحُقُوق اَدا نہ کئےتولَامَحالہ(یعنی ہر صورت میں)قِیامت میں اَدا کرو گے،یہاں دنیا میں مال سے اور آخِرت میں اعمال سے، لہٰذا بہتری اسی میں ہے کہ دُنیا ہی میں ادا کر دو، ورنہ پچھتانا پڑے گا۔

 (مراٰۃ المناجیح ،ج۶ ص ۶۷۳)

ہمیشہ ہاتھ بھلائی کے واسطے اُٹھیں

بچانا ظلم و ستم سے مجھے سدا یارَبّ!

رہیں بھلائی کی راہوں میں گامزن ہر دَم

کریں نہ رُخ مرے پاؤں گُناہ کا یا رَبّ!

(وسائلِ بخشش مُرمّم،ص76،77)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                          صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد