Book Name:Buray Khatmay ka khof

       یہاں یہ مسئلہ بھی ذہن نشین رہے کہ اگر نزْع کے عالَم میں مَعَاذَاللہ عَزَّ  وَجَلَّ کسی کی زبان سے کوئی کُفریہ کلمہ نکل جائے تو اُس پر کفر کا حکم نہیں لگا یا جائے گا ۔جیساکہ دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 1250صفحات پر مشتمل کتاب”بہارِشریعت“ جلد اوّل صفحہ نمبر 809 پر ہے: مرتے وقت مَعَاذَاللہ عَزَّ  وَجَلَّ اس کی زبان سے کلمہ کفر نکلا تو کُفرکاحکم نہ دیں گے کہ ممکن ہے، موت کی سختی میں عقل جاتی رہی ہو اور بے ہوشی میں یہ کلمہ نکل گیااور بہت ممکن ہے کہ اُس کی بات پوری سمجھ میں نہ آئے کہ ایسی شدت کی حالت میں آدمی پوری بات صاف طور پر ادا کرلے،دُشوارہوتا ہے۔

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                 صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

        میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!بِلا شبہ ایک مسلمان کے پاس سب سے قیمتی دولت اس کا ایمان ہے کہ اگر دُنیا سے ایمان سلامت لے گیا تو کامیاب ہے اور اگر خُدا نخواستہ گُناہوں کی وجہ سے ایمان ہی برباد ہوگیا تو نماز،روزے،حج،تلاوتِ قرآن،تراویح ،صدَقہ اور دیگر نیک کام کوئی فائدہ نہ دیں گے بلکہ ایسے بدنصیب کو ہمیشہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں جلنا پڑے گا۔یہی وجہ ہے کہ شیطان شب و روز ہم سے ہمارے ایمان کی دولت کو چھیننے کی کوششوں میں مصروف ہے اور بدقسمتی سے ہماری اکثریت کو ایمان کی سلامتی کی فکر ہی نہیں،ہاں فکر ہے تواپنا بینک بیلنس(Bank Balance) بڑھانے اور ایک دوسرے سے دُنیوی برتری لے جانے کی۔ دولت ِایمان کی حفاظت کی عملی تدبیر اختیار کرنا تو دُور کی بات،بدقسمتی سے اس بارے میں سوچنے کے لئے بھی ہمارے پاس وقت نہیں،حالانکہ ہم میں سے کسی کے پاس یہ گارنٹی نہیں کہ مرتے وقت ہمارا ایمان سلامت بھی رہے گا یا نہیں جیسا کہ حضرت سیِّدُنا ابودرداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرمایا کرتے تھے: خُدا عَزَّ وَجَلَّ کی قسم! کوئی شخص اس بات سے مطمئن نہیں ہوسکتا کہ مرتے وقت اس کا ایمان باقی رہے گا یا نہیں۔(کیمائے سعادت،پیدا کردن سوء خاتمت،۲ /۸۲۵ )