Book Name:Buray Khatmay ka khof

بُرے خاتمے کا خوف رُلا رہا ہے

       حضرت سیِّدُنا سُفیان ثَوری رَحمَۃُ اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہ بوقتِ وفات رونے اور گھبرانے لگے۔ لوگوں نے دِلاسہ دیتے ہوئے عرض کی:اے ابُو عبدُاللہ!(اللہ رَبُّ الْعِزَّت عَزَّ وَجَلَّ کی رَحمت پر )اُمّید رکھئے۔ فرمایا : بُرے خاتِمے کا خوف رُلا رہا ہے۔اِحیاءُ الْعلوم،کتاب الخوف والرجاء،بیان الدواء الذی بہ...الخ، ۴/۲۱۱ملتقطاً   )

اِمتحاں کے کہاں قابِل ہوں میں پیارے اللہ                           بے سبب بخش دے مولیٰ ترا کیا جاتا ہے

(وسائلِ بخشش(مُرمّم)،ص۴۳۲)

امیرِاہلسنّت کا درد مندانہ مکتوب

       شیخِ طریقت، امیر اہلسنّت حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ حفاظتِ ایمان کے بارے میں بہت حَسّاس ہیں ۔صفر المظفر 1424؁ ھ میں امیرِ اہلسنت دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی طرف سے مرکزی مجلسِ شوریٰ اور دیگر مجالس کے اراکین وغیرہ کے نام لکھے گئے ایک خط کی ابتدا میں ایمان کی حفاظت سے متعلق کی جانے والی فکر ِمدینہ کا پر تاثیر اندازملاحظہ ہو:

        (چنانچہ بعدِ سلام تحریر فرمایا)یہ الفاظ لکھتے وقت آہ! میں مدینَۂ منورہ سے بہت دُورپڑاہوں۔ مدینَۂ منورہ  میں رات کے تقریباً 3 بج کر21 منٹ اور پاکستان میں5بج کر 21 منٹ ہوئے ہیں،میں اپنی قیام گاہ کے مکتب میں مغموم و ملول(یعنی غمگین)قلم سنبھالے آپ حضرات کی بارگاہوں میں تحریراً دستک دے رہاہوں۔ آج کل یہاں طوفانی ہوائیں چل رہی ہیں  جو کہ دلوں کو خوفزدہ کردیتی ہیں۔ہائے ہائے! !بڑھاپا آنکھیں پھاڑے پیچھا کئے چلا آرہا اور موت کا پیغام سنا رہا ہے مگر نفس ِاَمّارہ ہے کہ سرکشی میں بڑھتا ہی چلا جارہا ہے ۔کہیں ہوا کا کوئی تیز و تند جھونکا میری زندگی کے چراغ  کو گُل نہ کردے، اے مولیٰ عَزَّ  وَجَلَّ ! زندگی کا چَراغ تو یقیناً بجھ کر رہے گا، میرے ایمان کی شمع سدا روشن رہے ۔یااللہ عَزَّ وَجَلَّ ! مجھے گُناہوں کے دلدل سے نکال دے ۔ کرم،کرم،کرم!(تعارفِ امیر اہلسنت،ص۵۶-۵۵)