Book Name:Maut kay Qasid

نزع میں رَبِّ غَفّار تجھ سے

 

موت سے قبل بیمار تجھ سے

طالبِ جلوۂ مُصْطفٰے ہے

 

یا خُدا تجھ سے میری دُعا ہے

وِردِ لب کلمۂ طَیِّبَہ ہو

 

اور ایمان پر خاتمہ ہو

آ گیا ہائے وقتِ قضا ہے

 

یا خدا تجھ سے میری دُعا ہے

 

 

(وسائلِ بخشش مُرمّم، ص  ۱۳۵، ۱۳۷)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                    صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 میٹھے میٹھےاسلامی بھائیو ! موت کے وَقْت کی تکلیف تو مُردہ ہی جان سکتاہے  مگر ہمیں اپنی موت کو کبھی فراموش نہیں کرناچاہیےحضرت سَیِّدُناامام غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں : موت خوفناک ہےاور اس کا خطرہ بہت بڑاہے لیکن پھر بھی لوگ اس سے غافل ہیں کہ اس کے بارے میں سوچ بچار کرتے ہیں نہ اسےیاد کرتےہیں اور اگر کوئی یاد بھی کرتاہےتوبے توجہی  سے کرتا ہے کہ  دل دُنیوی خواہشات میں مشغول رہتاہےلہٰذا موت کی یادسےدل کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا،البتہ فائدہ اس طریقےسےپہنچ سکتاہےکہ موت کواپنےسامنےسمجھتےہوئےیادکرےاوراس کےعلاوہ ہرچیز کو اپنے دل سے نکال دےجیسے کوئی شخص  خطرناک جنگل میں سفر کا ارادہ کرے یا سمندری سفر کا ارادہ کرے تو بَس اسی کے بارے میں غور وفکر کرتارہتاہےلہٰذا جب موت کی یاد کا تعلق دل سے براہِ راست ہوگاتو اس کا اثر بھی  ہوگا اور علامت یہ ہوگی کہ دنیاسے  دل اتنا ٹُوٹ چکاہوگاکہ دنیاکی ہر خوشی بے معنی ہوکر رہ جائے گی۔(احیاء العلوم ،۵/۱۹۵)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!موت کی حقیقت  جان لینے کے بعدآئیے !اب موت کو  یاد کرنے کےچند فضائل  بھی  سنتے ہیں  چنانچہ (ایک مرتبہ)حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صدّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے عرض کی:”یارسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! کیا شہیدوں کے ساتھ کسی اور کوبھی اُٹھایاجائے