Book Name:Riyakari ki Tabahkariyan

جبکہ ایک اور آیت میںاللہ عَزَّ  وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:  

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰىۙ-كَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَهٗ رِئَآءَ النَّاسِ وَ لَا یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِؕ-فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْهِ تُرَابٌ فَاَصَابَهٗ وَابِلٌ فَتَرَكَهٗ صَلْدًاؕ-لَا یَقْدِرُوْنَ عَلٰى شَیْءٍ مِّمَّا كَسَبُوْاؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ(۲۶۴)(پ۳، البقرۃ: ۲۶۴)

  تَرْجَمَۂ کنز الایمان:”اے ایمان والو اپنے صَدَقے باطل نہ کردو احسان رکھ کر اور ایذا دے کر ،اُس کی طرح جو اپنا مال لوگوں کے دِکھاوے کے لئے خرچ کرے اور اللہ اور قِیامت پر ایمان نہ لائے تو اُس کی کہاوت ایسی ہے جیسے ایک چٹان کہ اُس پر مٹی ہے، اب اُس پر زور کا پانی پڑا جس نے اسے نرا پتھر کر چھوڑا، اپنی کمائی سے کسی چیز پر قابو نہ پائیں گے اور اللہ کافروں کو راہ نہیں دیتا۔“

صَدْرُالاَفاضل حَضْرتِ علامہ مولاناسَیِّدمحمدنعیمُ الدِّین مُرادآبادیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِیخَزائنُ الْعِرفان میں اِس آیتِ مُبارَکہ کے تحت فرماتے ہیں:’’جس طرح مُنافِق کو رِضائے الٰہی مقصود نہیں ہوتی ،وہ اپنا مال رِیا کاری کے لئے خَرچ کرکے ضائع کردیتاہے،اس طرح تم اِحسان جَتا کر اور اِیذاء دے کر اپنے صَدَقات کا اَجْرْ ضائع نہ کرو۔یہ( آیتِ مُبارَکہ) مُنافِق ریا کار کے عمل کی مثال ہے کہ جس طرح پتھر پر مٹی نظر آتی ہے لیکن بارش سے وہ سب دُور ہو جاتی ہے، خالی پتھر رہ جاتا ہے، یہی حال مُنافِق کے عمل کا ہے کہ دیکھنے والوں کو معلوم ہوتا ہے کہ عمل ہے اور روزِ قِیامت وہ تمام عمل باطل ہوں گے، کیونکہ رِضائے الٰہی کے لئے نہ تھے۔“(خزائن العرفان، پ ۳، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۶۴)

میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو! اب ذرا غور کیجئے کہ قِیامت کے دن جب ہر کسی کو اپنے اَعْمال کی فکر ہوگی، ایسےمیں اگر کسی کا نامۂ اعما  ل پیش کیاجاۓ اور اُسے پتاچلے کہ اِس کے  بہت سے نیک اَعْمال فقط رِیَا کاری کی وجہ