Book Name:Ghaus e Pak ki Ibadat O Riyazat

دیگر نیک اعمال کرتے رہتے ہیں مگر پھر شیطان کے  مکروفریب میں مبتلا ہوکر نیکیوں سے دور اور گناہوں بھری زندگی میں مشغول ہوجاتے ہیں ۔اگر ہم عبادت پر استقامت چاہتے ہیں توہروقت  ہمیں اپنے مقصدِ حیات کو پیشِ نظر رکھنا ہوگا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ہمیں مُقرَّرہ وَقت کیلئے خاص مقصد کے تحت اِس دنیا میں بھیجا ہے  اس کے بعد ہمیں مرنا بھی پڑے گاچنانچہ  پارہ 18سورۃُ المُؤمِنُون آیت نمبر115میں ارشاد ہوتا ہے:

اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ(۱۱۵)

ترجمہ کنزالایمان : تو کیا یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بے کار بنایا اور تمہیں ہماری طرف پھرنا نہیں۔

صدرالافاضل حضرت مولانا سیدنعیم الدین مرادآبادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْہَادِی اس آیتِ مقدّسہ کے تحت فرماتے ہیں:(کیا تمہیں)آخِرت میں جزا کیلئے اٹھنا نہیں بلکہ تمہیں عبادت کیلئے پیدا کیا کہ تم پر عبادت لازم کریں اور آخِرت میں تم ہماری طرف لوٹ کر آؤ تو تمہیں تمھارے اعمال کی جزا دیں۔

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ربِّ کائنات عَزَّ  وَجَلَّ نے انسان کو اپنی عبادت ومعرفت کے لیے پیدا فرمایا ہے مگر افسوس !ہم نے اپنے مقصد ِحیات کو بھُلا کر دنیا ہی کو سب کچھ سمجھ لیا ہے اوراس کی محبت میں ایسے گم ہوئے  کہ حقوق اللہ کی بجاآوری کا ذرا  احساس نہ رہا ، یادرکھیے !دنیا آخرت کی کھیتی ہے اس میں جوبوئیں گے آخرت میں بطورِ جزا وہی کاٹیں گے ۔اگر نیک اعمال کے ذریعے اس کھیتی کو سیراب کریں گے تو ان شا ء اللہعَزَّ  وَجَلَّ   آخرت میں جنّت کی اعلیٰ نعمتوں کے حصہ دار بنیں گے اور اگر اللہ عَزَّ  وَجَلَّ   کی نافرمانی کرتے ہوئے گناہوں بھری زندگی بسرکی تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی ناراضی کی صورت میں عذابِ نار کے  حقدار ہونگے ۔ لہذا ہمیں بقدرِ حاجت اور اپنے بال بچوں کی ضرورت کے مطابق   ہی مال کمانا چاہیے اور خود کو دنیا میں ایک مسافر تصور کرنا چاہیے کہ جس طرح مُسافر اپنے سفر کے لئے انتہائی قلیل زادِ راہ