Book Name:Ghaus e Pak ki Ibadat O Riyazat

میں ایک قرآنِ پاک ختم کرتے رہے۔ (بہجةالاسرار،ذکرفصول من کلامهالخ،ص۱۱۸)

اسی طرح یہ بھی منقول ہے کہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ روزانہ ایک ہزار رکعت نفل ادا فرماتے تھے۔‘‘(تفریح الخاطر،ص۳۶)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ہوسکتا ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوکہ ہم توجب بھی عبادت کرنے لگتے ہیں تو کچھ ہی دیر میں تھک جاتے ہیں نیز ہمارا دل بھی پوری طرح عبادت میں نہیں لگتا اور خُشوع و خُضوع حاصل نہیں ہوتا،لیکن یہ بزرگانِ دینرَحِمَہُمُ اللہُ الۡمُبِیۡن اتنی زیادہ عبادت کیسے کیا کرتے تھےاور ان کے دلوں میں عبادت  کا اتنا ذوق و شوق کیسے پیدا ہوجاتا تھا؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ  نیک بندوں کے دل محبتِ الہی اور تقویٰ سے آباد ہوتے ہیں ، یہ اپنے دلوں سے دنیا کی محبت نکال دیتے ہیں ، ان کی روحیں ذکرِ الہی کے بغیر بے چین و بے قرار رہتی ہیں، اس لئے وہ ہر لمحہ یادِ الہی میں مگن رہتے ہیں اور بندے کو یہ مقام عبادت و ریاضت میں سخت محنت کرنے سے حاصل ہوتا ہے ۔ بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللّٰہُ الْمُبِیْن  کی سیرت کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ خدا عَزَّوَجَلَّکا قُرب حاصل کرنے اور  دنیاکی محبت  کو دل سے نکالنے کے لئے بہت سختیاں جھیلتے  اور ریاضتیں کیا کرتے تھے ۔ چنانچہ،

سردرات میں چالیس بارغسل

    ''بَہْجَۃُ الاَسرار شریف میں ہے ، سرکارِ بغداد حضور ِغوثِ پاک رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں ، میں'' کَرخ'' کے جنگلوں میں برسوں رہا ہوں ، درخْتْ کے پَتّوں اوربُوٹیوں پر میرا گزارہ ہوتا۔ مجھے پہننے کے لیے ہر سال ایک شخص صُوف  ( یعنی اُون)  کا ایک جُبّہ لاکر دیتا تھا جس کو میں پہنا کرتاتھا۔ میں نے دنیا کی مَحَبَّت سے نَجات حاصل کرنے کے لیے ہزار جَتَن کیے ،میں گُمنام رہا، میری خاموشی کے سبب لوگ