سامان نقد خرید کر اُدھار بیچنا/ گاہک کو مال کی قیمتِ خرید غلط بتانا/ چوری کا مال خرید کر بیچنا

سامان نقد خرید کر اُدھار بیچنا

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مُفْتِیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ زیدمیرے پاس آتا ہے اسے فریزر یا موٹر سائیکل لینی ہے وہ مجھ سے اس کیلئے قرض مانگتا ہے، میں زید سے کہتا ہوں کہ میں آپ کو مارکیٹ سے فریزر نقد لے کر دیتا ہوں، آپ کو جو قسطیں (Installments) اور نفع (Profit)  مارکیٹ میں دینا ہے وہ مجھے دے دینا، وہ اس پر راضی ہو کر میرے ساتھ مارکیٹ جاتا ہے، میں اسے نقد میں فریزر یا موٹرسائیکل خرید کر دے دیتا ہوں، اس صورت میں شرعی حکم کیا ہوگا؟ اور جو قبضہ کرنے کا کہا جاتا ہے تو اس قبضہ کرنے سے کیا مراد ہے؟ کیا مجھے وہ موٹرسائیکل ایک دو دن کیلئے گھر لے جاکر پھر زید کو دینی ہوگی؟ یا یہ مراد ہے کہ مجھے اپنے ہی نام کی رسید بنانی چاہئے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب:پوچھی گئی صورت کے مطابق آپ کا پہلے مارکیٹ سے نقد موٹرسائیکل یا فریزر وغیرہ خود خریدنا پھر خرید کر زید کو قسطوں (Installment) پر بیچنا جائز ہے لیکن زید کو بیچنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ خریدی گئی چیز پر پہلے قبضہ کریں پھر اسے آگے زید کو انسٹالمنٹ پر بیچیں۔ صرف پرچی کا آپ کے نام بننا قبضہ نہیں کہلائے گا اور بغیر قبضہ کئے آگے بیچنا جائز نہیں۔ درِّمختار میں ہے:”لَایَصِحُّ بَیْعُ مَنْقُوْلٍ قَبْلَ قَبْضِہٖترجمہ:منقولی (Moveable)چیز کی بیع قبضے سے پہلے درست نہیں ہے۔ (درمختارج،7،ص384)

قبضہ کرنے کے مختلف طریقے فُقَہَاء نے بیان کئے ہیں مختلف اموال کو سامنے رکھ کر قبضہ کا تقاضا پورا کیا جاسکتا ہے۔

پوچھی گئی صورت میں قبضہ کرنے کے لئے مندرجہ ذیل دو طریقے اختیار کئے جاسکتے ہیں: (1)جس گاڑی میں مال لوڈ (Load) کرکے بھیجا جائے گا وہ گاڑی آپ خود کروائیں اس کا کرایہ بھی آپ ہی ادا کریں اور آپ زید کو پہنچ پر مال بیچیں  اس طریقہ کے مطابق جیسے ہی مال گاڑی میں لوڈ ہوگا آپ کے قبضے میں آجائے گا۔ اس کے بعد زید کو یہ چیز آپ فروخت کر دیں اور جہاں پہنچانے کا طے ہو وہاں پہنچا دیں۔ گاڑی کروانے کا جو خرچہ زائد ہوا ہے قیمت طے کرتے وقت اس خرچے کو سامنے رکھ کر قیمت طے کی جا سکتی ہے مثلاً ایک چیز بیس ہزار  روپے (20,000) کی بیچنی تھی لیکن مال پہنچ پر دینا ہو تو کرایہ کے خرچے کے پیشِ نظر یہی چیز بائیس ہزار روپے (22,000) کی بھی بیچی جا سکتی ہے۔ (2)قبضہ کا دوسرا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ خریداری کے بعد  مال گودام سے نکلوا کر آپ کے سامنے اس طرح رکھ دیا جائے کہ اگر آپ اس پر قبضہ کرنا چاہیں، لے جانا چاہیں تو بآسانی لے جا سکتے ہوں  اور آپ کے قبضہ کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو، یہ شرعی اصطلاح  میں تَخْلِیَہ کہلاتا ہے اور یہ بھی قبضہ کے قائم مقام ہے۔ عام طور پر دکان دار کو پیسے ادا کر دئیے جائیں یا اُدھار میں خریداری ہوئی ہو تو بات چیت مکمل ہونے کے بعد دکان دار مال خریدار کے حوالے کر دیتا ہے اس حوالگی ہی کو تَخْلِیَہ کہتے ہیں۔ جب تَخْلِیَہ حاصل ہو جائے تو قبضہ ہوجاتا ہے اور آپ وہ مال آگے فروخت کر سکتے ہیں لیکن تَخْلِیَہ کے تقاضے پورے کرنا عوام کے لئے بہت مشکل ہے اس لئے پہلا طریقہ زیادہ بہتر  ہے کہ غلطی کے اِمکانات کَم ہیں۔

 بہارِ شریعت میں ہے:”بائِع نے مَبِیْع اور مُشْتَری کے درمیان تَخْلِیَہ کردیا کہ اگر وہ قبضہ کرنا چاہے کرسکے اور قبضہ سے کوئی چیز مانِع نہ ہو اور مَبِیْع و مُشْتَری کے درمیان کوئی شے حائل بھی نہ ہو تو مَبِیْع پر قبضہ ہوگیا۔“(بہارِشریعت ،ج2،ص641، مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم

گاہک کو مال کی قیمتِ خرید غلط بتانا

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مُفْتِیانِ شرع ِمتین اس مسئلے کے بارے میں کہ میرا تعلق انڈیا سے ہے اور ہماری مارکیٹ میں چین سے مال آتا ہے اور چین میں کسی چیز کی قیمت مثلاً 10روپے ہے، لیکن اپنی جان پہچان سے ہمیں وہ چیز 9.5 روپے میں ملی، تو کیا گاہَک کو ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ چین میں اس کا بھاؤ 10روپے ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب:اگر صرف اتنا ہی کہے کہ چین میں اس کا بھاؤ 10 روپے ہے تو یہ جائز ہے کہ اس میں کوئی جھوٹ وغیرہ نہیں ہے، ہاں اگر اس نے یوں کہا کہ مجھے 10روپے میں ملی ہے حالانکہ اسے 9.5 (ساڑھےنو) روپے میں ملی تھی، تو اب یہ جائز نہ ہوگا کیونکہ یہ جھوٹ میں شامل ہوگا اور جھوٹ ناجائز وحرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ اللہ تَبَارَک وتعالٰی قراٰن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: (وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰)) (پ17، الحج: 30) ترجمۂ کنز الایمان: اور بچو جھوٹی بات سے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم

چوری کا مال خرید کر بیچنا

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مُفْتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ زید چوری کیا ہوا مال خریدتا اور بیچتا ہے تو یہ بات معلوم ہوتے ہوئے زید سے مال خریدنا اور آگے کسی اور کے ہاتھ فروخت کرنا جائز ہے یا نہیں؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب:تقریباً ہر مارکیٹ میں ہی چوری کے مال کی خرید و فروخت کے تعلق سے مسائل پیش آتے ہیں۔ اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان علیہِ رحمۃُ الرَّحمٰن نے چوری کا مال خریدنے کے تعلق سے مُمَانَعت کی دو صورتیں بیان فرمائی ہیں: پہلی یہ کہ یقینی طور پر (Confirm) معلوم ہو کہ یہ مال چوری کا ہے۔ دوسری یہ کہ واضح قرینہ کی بنیاد پر گُمان قائم ہوتا ہو کہ یہ چوری کا مال ہے ان دونوں صورتوں میں خریداری جائز نہیں ہوگی اور ایک تیسری مُمْکِنَہ صورت یہ ہو سکتی ہے کہ نہ معلوم تھا نہ ہی قرینہ تھا لیکن خریداری کے بعد پتا چل گیا تب بھی یہ مال مالک کو واپس  دینا فرض ہے چنانچہ فتاویٰ رضویہ میں ہے:”چوری کا مال دانِسْتَہ (جان  بوجھ کر) خریدنا حرام ہے بلکہ اگر معلوم نہ ہو مَظْنُون (گمان) ہو جب بھی حرام ہے مثلاً کوئی جاہل شخص کہ اس کے مُوْرِثِیْن بھی جاہل تھے کوئی عِلمی کتاب بیچنے کو لائے اور اپنی مِلک بتائے اس کے خریدنے کی اجازت نہیں  اور اگر نہ معلوم ہے نہ کوئی واضح قرینہ تو خریداری جائز ہے، پھر اگر ثابت ہوجائے کہ یہ چوری کا مال ہے تو اس کااستعمال حرام ہے بلکہ مالک کو دیا جائے اور وہ نہ ہو تو اس کے وارِثوں  کو، اور اُن کا بھی پتہ نہ چل سکے تو فُقَرَاء کو۔“(فتاویٰ رضویہ، ج17،ص165)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم

400رکعت نفل

منقول ہے کہ  حضرت سیّدنا فَتْح مَوْصِلی علیہِ رحمۃُ اللہِ الْقَوی درد سر میں مبتلا ہوئے تو  خوش ہو کر ارشاد فرمایا :”اللہ  عَزَّ  وَجَلَّ نے مجھے اس مرض میں مبتلا کیا  جس میں انبیائے کرام علیہِمُ السَّلام کو مبتلا کیا،اب اس کا شکرانہ یہ ہے کہ میں 400 رکعت نفل پڑھوں۔“(سیر اعلام النبلاء،ج9،ص179)

 


Share

سامان نقد خرید کر اُدھار بیچنا/ گاہک کو مال کی قیمتِ خرید غلط بتانا/ چوری کا مال خرید کر بیچنا

ایک بار حضرتِ سیدنا جریررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے لئے300 درہم میں گھوڑا خریدا گیا، سودا طے ہوجانےکے بعدآپ نے مالِک سے فرمایا : تمہارا گھوڑا زیادہ قیمت کا ہے،کیا تم اسے400 درہم میں دو گے؟اس نے عرْض کی:آپ کی مرضی،آپ نےپھر فرمایا: نہیں،بلکہ تمہارا گھوڑا اس سے بھی زیادہ کا معلوم ہوتا ہے،کیا تم اسے  500 درہم میں بیچو گے؟آپ اسی طرح گھوڑے کی قیمت سو100، سو100  کرکے بڑھاتے گئے حتی کہ 800 درہم میں اسے خرید ا،جب آپ سےقیمت بڑھانے کی وجہ پوچھی گئی تو فرمایا: میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے ہر مسلمان کی خیر خواہی پر بَیعَت کی ہے ۔(مرقاۃ المفاتیح،ج8،ص703)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھاآپ نے کہ ہمارے اَسلاف کیسے خیرخواہ ہوتےتھے!اسلام ہمیں ایک دوسرے کی خیرخواہی کی ترغیب دیتا ہے ،تجارت میں خیر خواہی کی ایک صورت یہ ہے کہ گاہک کو دھوکا  نہ دیا جائے ۔بیچی جانے والی چیز  میں اگر عیب ہو تو دکاندار پر لازم ہے کہ اسے بَیان کردے۔ وہ ہم میں سے نہیں:حُضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمغلّے کی ڈھیری کے پاس سے گزرے،آپ نےاُس میں ہاتھ ڈالاتو اُنگلیوں میں تَری محسوس ہوئی،ارشاد فرمایا:اے غلّے والے! یہ کیا ہے؟ اُس نے عرْض کی:یارسولَ اللہ!(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) اس پر بارش کا پانی پڑگیا تھا۔ ارشاد فرمایا :تو نے بھیگے ہوئے کو اوپر کیوں نہیں کر دیا کہ لوگ دیکھتے،جو دھوکا دے وہ ہم میں سے نہیں۔ ( مسلم، ص64، حدیث:284)آج کل ہمارے ہاں دھوکے کی یہ صورت بھی عام ہے کہ سبزیوں اور پھلوں  والے صاف ستھری اور اچھی چیزیں  گاہک کو دکھانے کے لئے سامنے رکھتے ہیں لیکن جب تولتے اور تھیلی میں ڈالتے ہیں تو کمالِ ہوشیاری سے خراب چیزیں ڈال دیتے ہیں، گاہک بے چارے کو گھر جا کر پتا چلتا ہے کہ اس کے ساتھ دھوکا ہوگیا ہے۔دھوکے کی دوتعریفیں: (1)اَلْغَشُّ سَتْرُ حَالِ الشَّيْءِ یعنی کسی چیزکی(اصلی)حالت کو چھپانا دھوکا ہے۔ (فیض القدیر، ج6،ص240، تحت الحدیث8879)(2)دھوکا یہ ہے کہ کوئی شخص کسی چیز کو ظاہر کرے اور اس کے خِلاف(یعنی حقیقت)کو چھپائے یا کوئی بات کہے اور اس کے خِلاف(یعنی حقیقی بات)کو چُھپائے۔(غریب الحدیث لابراہیم الحربی،ج 2،ص658) مثلاً کسی عیب دار چیز کو اس کا عیب چُھپا کر بیچنا،جعلی یا ملاوٹ والی چیزوں کو اصلی اور خالِص کہہ کر بیچنا۔

دیگر معاملات کی طرح تجارت میں بھی اس آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے کہ نفس وشیطان کا اصرار ہوتا ہے کہ بس مال آنا چاہئے ،اس کے لئے جھوٹ بولنا پڑے یا دھوکا دینا پڑے ، جبکہ اسلامی تعلیمات یہ ہیں کہ نَفْع کم ہویا زیادہ ! جھوٹ ، فریب اور دھوکا دہی سے بچنا ضروری ہے۔ دھوکا دَہی کے ذریعے تھوڑی تھوڑی کرکے جمع کی جانے والی رقم بعض اوقات ایک  بار میں ہی ہلاک ہوجاتی ہے۔ سیلاب بہا کرلے گیا (حکایت):ایک شخص گائےکے دودھ میں پانی ملا کر بیچا کرتا تھا،ایک دن سیلاب آیا اور اس کی گائے کو بَہا کر لے گیا، اس پر اس کے بیٹے نے کہا:یہ وہ  پانی ہے جسے آپ نے مختلف اوقات میں دودھ میں ملایا تھا اوراب وہ ایک دفعہ میں اِکٹّھا ہو کر گائے کو بَہا کر لے گیا۔ (احیاء العلوم،ج 2،ص97)

کالی مرچ میں  پپیتے کے بیج ، مسالہ جات میں لکڑی کا برادہ ملانے  اورسکرین(Saccharine) کے انجکشن لگا کر پھلوں کو میٹھا کرنے والے اِس حکایت  سے عبرت حاصل کریں کہ کہیں دنیا میں ہی لینے  کے دینے نہ پڑ جائیں۔

اللہ عَزَّ  وَجَلَّ ہم سب کو مسلمانوں کا خیرخواہ بنائے،انہیں نقصان پہنچانے  اور دھوکا دینے سے بچائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ


Share

سامان نقد خرید کر اُدھار بیچنا/ گاہک کو مال کی قیمتِ خرید غلط بتانا/ چوری کا مال خرید کر بیچنا

حضرتِ سَیِّدُنا مُغِیْرَہ بِن شُعْبَہ رضیَ اللّٰہُ تعالٰی عنہ جب کسی پھیری والے سے کوئی چیز خریدتے تو اُسے راستے سے ہٹا کر خریدتے تاکہ چلنے والوں کو تکلیف نہ ہو۔(تنبیہ المغترین، ص217)

شریعت و سنّت کے مطابق تجارت کرنا رزقِ حلال کے حصول کا ایک بہترین ذَریعہ ہے اچھی اچھی نیتیں ہوں تو عبادت بھی ہے لہٰذا تاجِر کو چاہئے کہ دَورانِ تجارت بندوں کی حق تلفیوں سے باز رہے کہ بندوں کی حق تلفی آخرت کے لئے اِنتہائی نُقصان دِہ ہے جیسا کہ حضرت سیِّدُنا اَحمد بِن حَرب علیہِ رحمۃُ اللّٰہِ الرَّب فرماتے ہیں: کئی لوگ نیکیوں کی کثیر دولت لئے دُنیا سے رُخصت ہوں گے مگر بندوں کی حق تلفیوں کے باعِث قیامت کے دِن اپنی ساری نیکیاں کھو بیٹھیں گے اور یوں غریب و نادار ہوجائیں گے۔(تنبیہ المغترین، ص60)

بعض تاجر حضرات دکان سے باہر اپنا سامان اِس طرح رکھ دیتے ہیں کہ راستہ تنگ ہوجاتا ہے اور آنے جانے والوں کو تکلیف ہوتی ہے، یہ ناجائز و گناہ ہے۔ بہارِ شریعت جلد 3 صفحہ 871 پر ہے:”عام راستہ پر خرید و فروخت کے لئے بیٹھنا جائز ہے جبکہ کسی کے لئے تکلیف دِہ نہ ہو اور اگر کسی کو تکلیف دے تو وہ ناجائز ہے۔“ لوگوں کا راستہ روکنے اور ان کی حق تلفیاں کرنے والے سے سودا بھی نہیں خریدنا چاہئے جیسا کہ فتاویٰ عالَمگیری میں ہے:جو شخص راستے پر خرید و فروخت کرتا ہے اگر راستہ کُشادہ ہے کہ اس کے بیٹھنے سے راہ گیر وں پر تنگی نہیں ہوتی تو حَرج نہیں اور اگر گزرنے والوں کو اس کی وجہ سے تکلیف ہوتی ہو تو اُس سے سودا نہیں  خریدنا چاہئے کہ یہ  گناہ پر مدد دینا ہے کیونکہ جب اس سے  کوئی خریدے گا نہیں تو وہ وہاں بیٹھے گا بھی نہیں۔(فتاویٰ عالمگیری،ج3،ص210)

پھیری والے کو بھی چاہئے کہ جب کوئی چیز بیچنے کے لئے رُکے تو راستے سے ہٹ کر ٹھہرے تاکہ کسی راہ گزر کو تکلیف نہ ہو۔

تاجِر کو چاہئے کہ دَورانِ تجارت اِس بات کا خیال رکھے کہ خریدار سے سودا طے ہوجانے کے بعد اگر کوئی اور اس چیز کے زیادہ دام لگائے تو پہلے خریدار کو چھو ڑ کر دوسرے کو وہ چیز نہ بیچے کہ اس میں پہلے خریدار کی حق تلفی ہے اور نبیِّ کریم صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے اِس سے بھی منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص اپنے بھائی کے سودے پر سودا کرے۔( مسلم، ص 564، حدیث:3455)

اسی طرح تاجِر کو چاہئے کہ اپنے پڑوسی دُکاندار کا کاروبار ٹَھپ کرنے کیلئے اُس کے مال کی خواہ مخواہ خرابیاں بیان کر کے اُس کے گاہک اپنی طرف کھینچنے کی کوشش نہ کرے بلکہ ہو سکے تو اس کے ساتھ خیرخواہی والا سلوک کرے۔ حکایت: قُطبِ مدینہ، حضرت مولانا ضیاءُ الدِّین احمد قادری رَضَوی  علیہِ رحمۃُ اللّٰہِ الْقوِی سے کسی نے عَرض کی: یاسیِّدی! پہلے (غالِباً ترکوں کے دَور ) کے اہلِ مدینہ کو آپ نے کیسا پایا؟ فرمایا: ایک مالدار حاجی صاحِب غُرَبا میں کپڑا تقسیم کرنے کی غَرَض سے خریداری کیلئے ایک دُکان پر پہنچے اور مطلوبہ کپڑا کافی مقدار میں طَلَب کیا۔ دکاندار نے کہا: میں آپ کا آرڈر پورا تو کرسکتا ہوں مگر میری درخواست ہے کہ آپ سامنے والی دُکان سے خرید فرما لیجئے کیونکہ اَلْحَمْدُ للّٰہ  عَزَّوَجَلَّ آج میری اچّھی بِکری ہوگئی ہے جبکہ میرے  اُس پڑوسی دُکان دار کا آج دھندا کچھ کم ہوا ہے۔ آپ رحمۃُ اللّٰہِ تعالٰی علیہِ نے فرمایا: پہلے کے اہلِ مدینہ ایسے تھے۔

(بُرے خاتمے کے اَسباب، ص 14تا 15 ملخصاً)


Share

سامان نقد خرید کر اُدھار بیچنا/ گاہک کو مال کی قیمتِ خرید غلط بتانا/ چوری کا مال خرید کر بیچنا

تجارت ہماری دُنیوی ضرورت ہے لیکن مسلمان ہونے کے اعتبار سےہمارے کاروباری معاملات میں بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول   صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت کی واضح جھلک نظر آنی چاہئے مگر بدقسمتی سے ہماری اکثریت اسلامی تعلیمات سے رُوگردانی کرتے ہوئے دورانِ تجارت سود، دھوکہ دَہی، بددیانتی، جھوٹ وغیرہ گناہوں کا ارتکاب کرتی ہے جو نہ صرف  کاروبار میں بے برکتی بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ناراضی اور عذابِِ الٰہی کی حقداری کا سبب ہے۔ فی زمانہ تاجروں میں پائی جانے والی برائیوں میں سے ایک بری عادت غیبت بھی ہے۔

غیبت کی تعریف: کسی شخص کے پوشیدہ عیب کو (اس کی پیٹھ پیچھے) اس کی برائی کرنے کے طور پر ذکر کرنا غیبت ہے۔(بہارِ شریعت،ج 3،ص532،ملخصاً)جوکہ حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔

غیبت کا عذاب:معراج کی رات نبیِّ کریم  صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم کا گزر ايسی عورتوں اور مَردوں کے پاس سے ہوا جو اپنی چھاتیوں سے لٹکے ہوئے تھے، پوچھنے پر جبرئیل علیہِ السَّلَام نے عرض کی: يہ مُنہ پر عيب لگانے والے اور پیٹھ پیچھے برائی کرنے والے ہیں ان کے مُتَعَلِّق اللہ عَزَّوَجَلَّ اِرشاد فرماتا ہے: (وَیْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِ ﹰۙ (۱)) (پ30، الھمزہ:1) تَرْجَمَۂ کنزالایمان: خرابی ہے اس کے لئے جو لوگوں کے منہ پر عیب کرے، پیٹھ پیچھے بدی کرے۔(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) (شعب الایمان،ج5،ص309، حدیث: 6750،ملتقطاً)

چند مثالیں:عموماً تاجر حضرات پیسہ کمانے کی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں اور بعض اوقات گاہک کو دیگر دکانداروں سے بدظن کرتے ہوئے یوں  غیبتیں کرتے ہیں  کہ ٭فُلاں شخص تو ملاوٹ والا مال بیچتا ہے ٭ناپ تول میں ڈنڈی مارتا ہے ٭گھٹیا معیار کی چیزیں فروخت کرتا ہے ٭میرے کاروبار کی ترقّی سے جلتا ہے ٭یہ چاہتا ہے کہ بس کسی طرح میں یہ دُکان چھوڑ دوں ٭اُس نے ایسی نظر لگا ئی ہے کہ گاہک قریب نہیں  پھٹکتے۔

غیبت کے نقصانات:میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! غیبت جہاں خود کبیرہ گناہ ہے وہیں بہت سے گناہوں کی جڑ بھی ہے مثلاً (1)جس کی غیبت کی گئی معلوم ہونے پر اُس کی دل آزاری ہوتی ہے۔ (2)مسلمانوں میں باہمی نفرت پیدا ہوتی ہے۔ (3)غیبت کی وجہ سے نوبت لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے۔ (4)غیبت قطع تعلقی کا سبب بنتی ہے۔ (5)کسی کے بارے میں یہ غلط سوچ قائم کرلینا کہ فلاں تاجر ایسا  ویسا ہے یہ بدگمانی ہے۔ (6)گاہک کو جو عیب بیان کیا اگر وہ فلاں میں موجود نہ ہو تو یہ  بہتان کہلائے گا جو غیبت سے بھی بدتر ہے۔ (7)کسی کے گاہک توڑنے کیلئے اُس کی برائی کرنا بدخواہی کے زمرے میں آئے گا جو کہ حرام وگناہ ہے۔

یاد رہے! روزی دینے  والا اللہ عَزَّوَجَلَّ ہے اُس نے جس وقت میں جتنا رِزْق ہمارے نصیب میں لکھ دیا، لاکھ کوششوں  کے باوجود بھی اُس سے زیادہ نہیں مل سکتا، لہٰذا مال کی حرْص (لالچ) میں  کسی مسلمان کو نقصان پہنچانے کی بجائے ہمیشہ مسلمانوں کے ساتھ  خیرخواہی کا ذِہْن رکھنا چاہئے۔ حضرتِ سیِّدُنا یحییٰ بن معاذ رازی رحمۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ فرماتے ہیں:اگر مومنوں کو تم سے تین فوائد حاصِل ہوجائیں تو تم اِحسان کرنے والوں میں شمار کئے جاؤ گے۔ (1)اگر اُنہیں نَفع نہیں پہنچا سکتے تو نقصان بھی نہ پہنچاؤ! (2)اُنہیں خوش نہیں کر سکتے تو رنجیدہ بھی نہ کرو! (3)اُن کی تعریف نہیں کر سکتے تو بُرائی بھی مت کرو!۔(تنبیہ الغافلین، ص88)


Share

Articles

Gallery

Comments


Security Code