ساس کو کیسا ہونا چاہئے؟(قسط:1)

گھر کے ہر فرد کی کچھ نا کچھ شرعی و اخلاقی ذمہ داریاں ہوتی ہیں،جن کا خیال رکھنا خوشحال گھرانے  کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ساس بھی گھر کے اہم  افرادمیں سے ایک ہے۔ اس کی ذمہ داریاں دیگر افراد کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتی ہیں،اگر ساس دانشمندی وحکمتِ عملی سے نظام  چلائے تو گھر امن کا گہوارہ بن جاتاہےاور یہی ساس اگر  جانبداری کا مظاہرہ کرے، چھوٹی  چھوٹی باتوں کو اپنی اَنا (عزت)کا مسئلہ بناتے ہوئے طعنوں کے تیر برسانا شروع کر دے   تو پھر گھر   کا امن و امان تباہ ہو جاتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کی رو سے ایک ساس کو کیسا ہونا چاہئے اس حوالے سے چند مدنی پھول ملاحظہ کیجئے:

(1)مسافر جب پردیس میں جاتا ہےتواسے اجنبیت کی وجہ سے اپنے رشتے دار بہت یاد آتے ہیں، ایسے میں اگر کوئی  اجنبی اس کے ساتھ  حسنِ سلوک کرے  تو  یہ مسافر زندگی بھر کے لئے اس کا احسان مند ہو جاتا ہے،بالکل اسی طرح  بہو بھی اپنے ماں باپ، بہن بھائی  اور دیگر تمام تر رشتے دار چھوڑ کرنئے گھر آتی ہے، اس موقع پر ساس کو چا ہئے کہ وہ اس نئے مہمان کے ساتھ بہترین سلوک کرے،اسے اپنی بیٹی کی طرح سمجھےاورہر معاملے میں شفقت و محبّت کا برتاؤ کرے تاکہ بہو اس گھر کو پردیس سمجھ کر اداس ہونے کے بجائے اپنا گھر سمجھ کر اس کی رونق میں اضافے کا باعث بن سکے۔ (2)بات بات پر ٹوکنا ہر کسی کی طبیعت پر گراں گزرتا ہے اور باہمی رنجشوں کا سبب بنتا ہے، لہٰذا ساس کو چاہئے کہ  بہو کو بات بات پر ٹوکنے سے گریز کرے اور حکمتِ عملی سے کام لے تا کہ  بہو کی دل آزاری بھی نہ ہو اور گھر کی فضا بھی  خوشگوار رہے۔ (3)ساس کو گھر میں سب کے ساتھ یکساں سلوک  رکھنا چاہئے ، ایسا نہ ہو کہ اپنی بیٹی کو ہلکا سا بُخار یا سردرد ہو تو پورے محلے کو خبر ہوجائے کہ کوئی بیمار ہے لیکن بہو کی جان پربن رہی ہو تو بھی پرواہ  نہ کی جائے،  بلکہ بہانے بازاورکام چور جیسے تلخ طعنوں سے اس کا جگر چھلنی کر دیا جائے۔ جس طرح بیٹی کی تیمار داری کا سلسلہ  ہوتا ہے اگر  اسی طرح بہو کابھی خیال رکھا جائےتو اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے،باہم  محبتیں بھی  بڑھیں گی اور دلی کدورتوں کابھی خاتمہ ہوگا۔ (4)  حدیث مبارکہ میں ہے:”نرمی جس چیز میں ہوتی ہے اسے زینت بخشتی ہے اور جس چیز سے نرمی چھین لی جاتی ہے اسے عیب دار کردیتی ہے۔“( مسلم ، ص 1398،حدیث 6602)اس حدیث مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے ساس کو  بھی  اپنا مزاج نرم رکھنا  چاہئے،اگر بہو کے کسی کام میں کوئی کمی نظر آئے مثلاً کھانا بنانے  میں کمی ہے یا صفائی کرنے کا انداز درست نہیں یا بچوں کی دیکھ بھال میں کچھ نقص ہے تو  ساس غصے سے جھاڑنے کی بجائے نرمی سے کام لے۔ (5)جہیز لانا دُلہن  پر فرض و واجب نہیں، لہٰذا اگر وہ کم جہیز لائے تو اس معاملے میں بہو کو  ہرگز طعنے نہ دیےجائیں کہ اس سے دلوں میں دوریاں پیدا ہوتی ہیں، کتنے ہی  گھر ایسے ہیں کہ جہیز کی کمی کے طعنے ملنے کے باعث ساس بہو میں ٹھن گئی اور اس جھگڑے کا خاتمہ طلاق پر ہی ہوا۔ اگر کہیں بہو صبر کرکے وقت گزار بھی لے تو بھی گھر کی فضانہایت ناخوشگوار رہتی ہے، لہٰذا ساس کو چاہئے کہ جہیز کی کمی کے طعنے دے کر ایک مسلمان کی  دل آزاری کا گناہ  اپنے سَر نہ لے  کیونکہ نبی کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے فرمایا : جس نے (بِلاوجہِ شَرعی)کسی مسلمان کو ایذاء دی اُس نے مجھے ایذاء دی اور جس نے مجھے ایذاء دی اُس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ایذاء دی۔ (معجم الا وسط،ج2،ص387، حدیث:3607)(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔)


Share

Articles

Comments


Security Code