نوحہ کرنا یا سننا کیسا؟ مع دیگر سوالات

دارُالافتاء اہلِ سنّت

*مفتی ابو محمد علی اصغر  عطاری  مَدَنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اگست2023ء

 ( 1 )  نوحہ کرنا یا سننا کیسا ؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا نو حہ کیا یا سنا جا سکتاہے ؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

عام ورثاء پر تین دن اور بیوی پر 4 ماہ 10 دن سوگ ہے اس کے بعد سوگ نہیں۔ لہٰذا تین دن کے بعد جہاں سوگ منع ہے وہیں تجدید حزن بھی جائز نہیں ہے یعنی فوت شدہ یا شہید ہو جانے والے کو اس انداز میں یاد کرنا کہ حزن و غم تازہ ہو یہ بھی جائز نہیں ہے۔ ( فتاویٰ رضویہ ، 23 / 739 ، فتاویٰ رضویہ ، 24 / 488 )  جس موقع پر سوگ کی اجازت ہے یعنی عام ورثاء کے لئے تین دن اور بیوی کے لئے 4 ماہ دس دن وہاں بھی یہ ضروری ہے کہ نوحہ نا کیا جائے صدر الشریعہ علیہ الرَّحمہ نوحہ سے متعلق فرماتے ہیں ”نوحہ یعنی میت کے اوصاف مبالغہ کے ساتھ بیان کر کے آواز سے رونا ، جس کو بین کہتے ہیں بالاجماع حرام ہے۔ یوں ہی واویلا یا وا مصیبتا کہہ کر چلانا۔

 ( بہار شریعت ، 1 / 854 ، فتاویٰ رضویہ ، 23 / 756 )

نوحہ حرا م کا م ہے ( عا لمگیری ، 1 / 167 )  اور نو حہ کرنے والے کے لیے احا دیث میں سخت وعیدیں آئی ہیں اور اس کو کفر کی بات کہا گیا ہے یعنی یہ زمانہ جاہلیت کے لوگوں کا طریقہ ہے چنانچہ مسلم شریف میں ہے ”عن ابی ھریرۃ قا ل قال رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اثنتا ن فی الناس ھما بھم کفرالطعن فی النسب والنیاحۃ علی المیت “ حضر ت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روا یت ہے رسو ل اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشا د فرما یا : لو گو ں میں دو باتیں کفر ہیں کسی کے نسب میں طعن کرنا اور میت پر  نوحہ کرنا۔ ( صحیح مسلم ، 1 / 58 )

ایک اور حدیث پا ک میں ہے ”النائحۃ اذا لم تتب قبل موتھا تقام یو م القیا مۃ وعلیھا سربال من قطران ودع من جرب“ نو حہ کرنے والی جب اپنی مو ت سے قبل توبہ نہ کرے تو قیا مت کے دن کھڑی کی جا ئے گی یوں کہ اس بدن پر گندھک کا کرتا ہو گا اور کھجلی کا دو پٹا۔ ( صحیح مسلم ، 1 / 303 )

وَاللہ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

 ( 2 )  سیاہ بکرا یا مرغا مریض کے سر سے گھما کر صدقہ کرنا کیسا ؟

 سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص بیمار ہے تو اس کے لئے کہا جاتا ہے کہ سیاہ رنگ کا بکرا یا مرغا لے کر مریض کے سر پر سات بار وار کر صدقہ کردیں۔اس طریقہ کے بارے میں شریعت مبارکہ کے کیا احکام ہیں ؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

احادیثِ مبارکہ کے مضامین کے مطابق صدقہ بلاؤں کو ٹالتا ہے اور بالخصوص جان کا صدقہ تو اس معاملے میں بہت ہی مؤثر و نفع بخش ہے نیز بکری وغیرہ صدقہ کرنے کا ثبوت تو احادیثِ مبارکہ سے بھی ملتا ہے ، لہٰذا ممکنہ صورت میں بیمار شخص کی طرف سے حسبِ استطاعت کوئی جانور صدقہ کردینا چاہئے۔

مسند احمد کی حدیثِ پاک میں ہے : ”عن أم سلمة أن امرأة أهدت لها رجل شاة تصدق عليها بها فأمرها النبي صلى الله عليه وسلم أن تقبلها“ترجمہ : ”حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ ایک عورت نے ان کواس بکری کی ٹانگ ہدیہ کی جوبکری اس عورت پرصدقہ کی گئی تھی ، تونبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انہیں اسے قبول کرنے کا فرمایا۔“  ( مسنداحمد ، 44 / 242 )

 البتہ صدقہ کرنے میں فقط کالے رنگ کا بکرا دینے یا کالے رنگ ہی کی مرغی ہونے یا صدقے کی چیز سر پر سے گھما کر دینے کی کوئی فضیلت ہماری نگاہ سے نہیں گزری۔ یہ عمل ممکن ہے کسی ٹوٹکے کے طور پر کیا جاتا ہو۔ ٹوٹکے کے طور پر کیا جانے والا ہر عمل ناجائز نہیں ہوتا جیسا کہ سر پر مرچی گھماکر نظر اتارنے کا ایک عمل عاملین کی طرف سے بتایا جاتا ہے ، یہ ایک ٹوٹکا ہے اس پر عمل کرنا ، جائز ہے۔ لہٰذاسر پر گھمانے والی بات کو ناجائز کہنے کی بھی کوئی وجہ نہیں ہے البتہ اس کی فضیلت یا خصوصیت بھی ثابت نہیں ہے۔

  ( فتاوٰی رضویہ ، 24 / 185-186ملتقطاً ، فتاوٰی خلیلیہ ، 1 / 495-494 ملتقطاً ، حبیب الفتاویٰ ، 1 / 667 ملتقطاً )

صدقہ بلاؤں کو ٹالتا ہے۔ جیسا کہ شُعَبُ الايمان کی حدیثِ مبارک میں ہے : ”عن أنس بن مالك قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : باكروا بالصدقة فإن البلاء لا يتخطى الصدقة یعنی حضرتِ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ صبح سویرے صَدَقہ دِیا کرو کیونکہ بَلا صَدَقہ سے آگے قدم نہیں بڑھاتی۔ ( شُعَبُ الايمان ، 3 / 214 )  

وَاللہ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

 ( 3 )  چند سال پہلے دورانِ عمرہ خوشبو لگالی تھی تو اب کیا کرے ؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے چند سال پہلے عمرہ کیا تھا اور دورانِ عمرہ مسائل کا علم نہ ہونےکی وجہ سے حالتِ احرام میں خوشبو لگا لی تھی ، یعنی اس طرح کہ میں نے دونوں ہاتھوں پر عطر لگا کر ہاتھوں کومَل کے احرام پر لگا لیا ، اب مجھے معلوم ہوا ہے کہ ایسا کرنا درست نہیں تھا ، شرعی رہنمائی فرمائیں کہ اب اس کا کفارہ کیا ہوگا ؟ اور چونکہ کافی عرصہ ہوچکا ہے تو کیا ابھی بھی ادا کرسکتے ہیں ؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں آپ پر ایک دَم لازم آئے گا  ( مناسک علی القاری ، ص 551 )  کیونکہ اوّلاً تو جس طرح آپ نے خوشبو لگائی یہ قلیل نہیں ہوتی بلکہ کثیر ہوتی ہے اور بالفرض اس کو قلیل بھی مان لیا جائے تو قلیل خوشبو بھی حالتِ احرام میں جب پورے عضو پر لگا لی جائے ، تو دَم لازم آتا ہے۔ ( الفتاوى الهندیۃ ، 1 / 241 ، بہارِ شریعت ، 1 / 1163 )  فقہائے کرام نے ہتھیلی کو پورا عضو شمار کیا ہے ( البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحۃ الخالق ، 3 / 3 ) ، اگر کسی پر دَم واجب ہوا تو اس پر دَم کی ادائیگی فوری واجب نہیں۔ بہتر یہ ہے کہ فوراً ادا کر دے ، لہٰذا آپ اب بھی یہ کفارہ ادا کرسکتے ہیں  ( لباب المناسک ، ص542  ) نیز کفارے کی قربانی حرم ہی میں کی جاسکتی ہے ، پاکستان وغیرہ ، غیر حرم میں نہیں ہوسکتی۔ ( فتاویٰ رضویہ ، 10 / 713 )  اگر آپ اب حرم میں خود جاکر ادا نہیں کرسکتے تو کسی معتمد شخص کو رقم دے کر حرم میں دَم ادا کرنے کے لیے وکیل کردیں اور وہ شخص حرم میں آپ کی طرف سے دَم ادا کردے۔

وَاللہ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* محققِ اہلِ سنّت ، دارُالافتاء اہلِ سنّت نورُالعرفان ، کھارادر کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code