قلمِ اعلیٰ حضرت کی سلاست و روانی

قلمِ اعلیٰ حضرت کی سلاست و روانی

*مولانامحمد عباس عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اگست2023

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ  کو دیگر  علوم و فنون  کی طرح زبان و بیان  پر کامل دسترس تھی۔ آپ  رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ایسے  بلند پایہ  ادیب تھے  کہ  گویا  اردو زبان بھی  ان کے سامنے ہاتھ باندھے  کھڑی ہوتی ، آپ  کی  تمام تصنیفات خصوصاًفتاویٰ رضویہ میں جا بجا اس کے کثیر نظائر موجود ہیں جیسا کہ  لکھتے ہیں

اللہ اللہ ! ایک وہ دن تھا کہ مدینۂ طیِّبہ میں حضورِ پُر نور  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تشریف آوَری کی دُھوم ہے ۔ زمین و آسمان میں خیر مَقْدم کی صدائیں گونج رہی ہیں ، خوشی وشادمانی ہے کہ دَر ودیوار سے ٹپکی پڑتی ہے ، مدینے کے ایک ایک بچے کا دَمَکتا چہرہ انار دانہ ہورہا ہے ، باچھیں کھلی جاتی ہیں ، دل ہیں کہ سینوں میں نہیں سماتے ، سینوں پر جامے تنگ ، جاموں میں قبائے گُل کا رنگ ، نور ہے کہ چَھماچَھم برس رہا ہے ، فرش سے عرش تک نُور کا بُقعہ بنا ہے ، پردہ نشین کنواریاں شوقِ دیدارِ محبوبِِ کِرْدْگار میں گاتی ہوئی باہر آئی ہیں کہ

طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا مِنْ ثَنِیَّاتِ الْوَدَاعِ

وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا مَا دَعَا لِلہِ دَاعٍ

 ( ہم پر وداع کی گھاٹیوں سے چودھویں کا چاند طلوع ہوا ، ہم پر خُدا کا شکر واجب ہے ، جب تک دعا کرنے والا دعا مانگے۔ )

بَنِی النَّجّار کی لڑکیاں کوچےکو چےمحوِ نغمہ سرائی ہیں کہ نَحْنُ جَوَارٍ مِنْ بَنِی النَّجَّارِ

یَا حَبَّذَا مُحَمَّدٌ مِّنْ جَارٍ

  ( ہم بنو نجار کی لڑکیاں ہیں ! محمد صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کیسے اچھے ہمسائے ہیں۔ )   

( فتاوٰی رضویہ ، 15 / 701۔702 ، بتغیر قلیل )

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! نگاہِ شوق سے دیکھئے ! جملے جملے سے کیسی خوشی ٹپک رہی ہے ، فِقرہ فِقرہ خوشی سے کِھل رہا ہے ، لفظ لفظ مُسکرا رہا ہے۔ جانِ عالَم ، رحمتِ عالَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی  قبلہ دل وجاں میں تشریف آوری کا تذکرہ ہے اور امامِ عشق ومحبّت اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا قلم ہے۔ کلام کیا ہے بارشِ نُور کی پُھوار ہے ، جملے کیا ہیں مَسَرَّتوں کی لہریں ہیں ، فِقرے کیا ہیں شادمانیوں کے نغمے ہیں۔ عجب خوبصورت تحریر ہے جسے پڑھ کر یادِ محبوب کا سَماں بَندھ جاتا ہے ، دِل اُنہی حسین لمحوں کے تصور میں گُم ہوجاتا ہے ، کیا پُرکیف منظر ہوگا ، جب ماہِ رسالت کے گِرد ہدایت کے تارے ، پیارے پیارے ، صحابہ ہمارے جُھرمَٹ کئے ہوں گے ! اے کاش !

جو ہم بھی واں ہوتے خاکِ گُلشن ، لِپَٹ کے قدموں سے لیتے اُترن

مگر کریں کیا نصیب میں تو یہ نامرادی کے دن لکھے تھے

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! امامِ اہلِ سنت اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ قلم کے بادشاہ تھے ، آپ نے جہاں اپنے فتاویٰ میں تحقیقات ودَلائل کے دریا بَہائے ، ایمان واِعتِقاد کے ایک ایک باب میں۔۔۔ فقہ واِرشاد کے اکثر مسائل پر۔۔۔ آیات و احادیث کے جگمگاتے موتی پروئے ، روایات واقوالِ بزرگانِ دین کے مَہَکتے گلدستے تیار کئے ، وہیں آپ کی تحریر خوبصورتی کے ظاہِری واَدبی پہلو سے بھی تِشْنَہ نہیں تھی ، کلامِ رضا کا ہر مضمون جہاں تحقیق ودلائل کا مینارِ ضیا بار ہوتا تھا وہیں ”اردو ادب کا بھی حسین شاہکار“ ہوا کرتا تھا۔ اردو روز مَرّہ کا بَرجَسْتَہ استعِمال ، سادگی وسَلاسَت ، حقیقی مَنظَر نِگاری ، چھوٹے چھوٹے جملے ، چُسْت تراکیب ، خُوش نُما سَجع ، دِلکش تَشبِیہات ، بَر مَحل  کہاوتیں ، انوکھے اِستِعارے ، یہ وہ خوبیاں ہیں جو امامِ علم وعِرفان ، شَہسوارِ ہر میدان ، امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ  الرَّحْمٰن کی تحریروں کا عام خاصّہ ہیں۔

اُمّت کی غمخواری

آئیے ! کلامِ رضا کا ایک اور شَہ پارہ مُلاحَظہ کیجئے ، ہم گنہگاروں ، سِیَہ کاروں کے غم میں ، فکرِ امّت میں پیارے آقا ، مدینے والے مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بہنے والے آنسؤوں کا صدقہ مانگیئے۔

سویا کئے نابکار بندے     رویا کئے زار زار آقا

امام عشق ومحبت لکھتے ہیں :

”صبح قریب ہے ، ٹھنڈی نسیموں  کا پنکھا ہو رہا ہے ، ہر ایک کا جی اِس وقت آرام کی طرف جُھکتاہے ، بادشاہ اپنے گرْم بستروں ، نرْم تکیوں  میں  مست خوابِ ناز ہے اورجو محتاجِ بے نوا ہے اس کے بھی پاؤں  دوگز کی کملی میں  دراز ، ایسے سُہانے وقت ، ٹھنڈے زمانہ میں ، وہ معصوم ، بے گناہ ، پاک داماں ، عصمت پناہ اپنی راحت وآسائش کو چھوڑ ، خواب وآرام سے منہ موڑ ، جَبینِِ نیازآستانۂ عزّت پر رکھے ہے کہ الٰہی ! میری اُمّت سِیاہ کارہے ، دَرْگُزر فرما ، اوران کے تمام جسموں  کو آتِشِ دوزخ سے بچا۔ جب وہ جانِ راحت کانِ رَأفَت پیدا ہوا ، بارگاہِ الٰہی میں  سجدہ کیا اور رَبِّ ھَبْ لِیْ اُمَّتِیْ[1] فرمایا۔ جب قبر شریف میں  اُتارا لَبِ ِجاں  بخش کو جنبش تھی ، بعض صحابہ نے کان لگا کر سُنا ، آہستہ آہستہ اُمَّتِیْ اُمَّتِیْ[2] فرماتے تھے۔ قیامت کے روز کہ عَجَب سختی کا دن ہے ، تانبے کی زمین ، ننگے پاؤں ، زَبانیں  پیاس سے باہر ، آفتاب سَروں  پر ، سائے کا پتہ نہیں ، حساب کا دَغْدَغَہ ، مَلِکِ قَہّار کا سامنا ، عالَم اپنی فکر میں  گرفتار ہوگا ، مُجرمانِ بے یار دامِ آفت کے گرفتار ، جدھر جائیں  گے سوا نَفْسِیْ نَفْسِیْ اِذْھَبُوْا اِلٰی غَیْرِیْ[3] کچھ جواب نہ پائیں  گے۔اس وقت یہی محبوبِ غمگسار کام آئے گا ، قُفلِ شَفاعت اس کے زورِ بازو سے کُھل جائے گا ، عمامہ سَرِاَقدس سے اُتاریں  گے اورسَربَسُجود ہو کر ”یَا رَبِّ اُمَّتِیْ[4] “ فرمائیں  گے ۔“  ( فتاوٰی رضویہ ، 30 / 717 )

فتاویٰ الحرمین

امامِ اہلِ سنت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا زمانہ وہ زمانہ تھا جب ہر طرف فِتنوں نے سَر اٹھایا تھا ، شیطان اپنے مکروہ چہرے پر ایک سے بڑھ کر ایک خوش نُما نِقاب ڈالے آتا تھا ، کہیں علم وفَضْل کے جُبّہ ودِستار میں رَہْزَنِی کرتا تو کہیں بھائی چارے اور اتِّحاد کے بِھیس میں دین وایمان پہ ڈاکے ڈالتا۔ ایسے کڑے وقت میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ  الرَّحمٰن نے فتنوں کا مقابلہ کیا ، آپ نے ابلیسِ لَعِین کا مکروہ چہرہ سب کے سامنے بے نِقاب کیا اور شیطانی چالوں کو ناکام بنایا ، امامِ اہلِ سنّت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے شیطانی سازِشوں کی مکمل تفصیل اپنے مُبارَک فتوے کی صورت میں علمائے مکہ ومدینہ کی طرف روانہ فرمائی ، علمائے حَرمَین شریفَین نے اپنی مبارک تصدیقات کے ساتھ شیطانی سازشوں کا رَد تحریر فرمایا اور امامِ اہلِ سنّت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو عالم علّامہ ، فاضِل فہّامہ ، راسخُ العلم اور بہت سے اَلقابات سے یاد کیا ، انہی مبارک فتاویٰ و تصدیقات کا نام ”فتاویٰ الحرمین“ ہے۔

آئیے ! نَثْرِ رضا کا ایک اور رنگ ملاحظہ کیجئے ، کلام کی سادگی وسَلاسَت دیکھئے ، لہجے کا خُلوص محسوس کیجئے۔ امام لکھتے ہیں :

”اب جو نہ دیکھے ، کان نہ دھرے ، حق سمجھنے کا قصد نہ کرے ، روزِ قیامت اس کے لئے کوئی عذر نہ ہوگا۔ دنیا چند روزہ ہے ، واحد قہّار سے کام پڑنا ہے ، للہ ! ایک ذرا تعصّب وسُخن پَرْوَرِی سے جدا ہو کر تفکُّر کرو ، تنہائیٔ قبر وہَنگامۂ حَشر کا تصوّر کرو ، اس دن نامۂ اعمال کھولے جائیں گے ، اس بھڑکتی آگ کو سامنے لائیں گے ، اہلِ سنّت نَجات پائیں گے ، اُن کے مُخالف نارِ جہنم میں دھکّے کھائیں گے ، مخالفوں کے ساتھی مخالفوں کے ساتھ ایک رسی میں باندھے جائیں گے۔ آنریری ، مجسٹریٹی ، ڈپٹی کلکٹری ، ججی وغیرہ کے مَنصب کام نہ آئیں گے ، صدارت ، نِظامت ، رُکنیَت وغیرہا یہ سب بَکھِیڑے یہیں رہ جائیں گے ، ہر ایک اپنی اکیلی جان سے ، اپنے اعمال ، اپنے ایمان سے بارگاہِ عدالت میں حاضر ہوگا ، ہر دل کا راز ظاہر ہوگا۔ کوئی جھوٹا حِیلہ ہرگز نہ چلے گا ، بات بنانے کو راستہ نہ ملے گا ، عالِمُ الغُیوب سوال کرے گا ، دانائے قُلوب اظہار لے گا ، وہاں یہ کہتے نہ بنے گی کہ ہم غافل تھے ، کچھ مولویوں نے بہکا دیا ، ہم جاہل تھے۔ آج کام اپنے اختیار میں ہے ، رحمتِ الٰہی توبہ کے انتِظار میں ہے۔

لِلّٰہِ ! انصاف کی آنکھ کھولو ، حق وباطل میزانِ عقل میں تولو۔ وہ کام کر چلو کہ بول بالا ہو ، اللہ و رسول سے منہ اجالا ہو۔ دیکھو ! دیکھو ! آنکھ کھول کر دیکھو ! !  یہ مبارک تحقیقیں ، یہ مقدس تصدیقیں تمھارے معبودِ عظیم کے پاک گھر سے آئیں ، تمھارے نبیِّ کریم کے شہرِ اطہر سے آئیں ، سَلِیس اردو میں ترجمہ ہوگیا ، حق کا آفتاب بے پردہ وحِجاب جلوہ نُما ہوگیا۔ اب اگر آنکھ اٹھا کر نظر نہ ڈالو ، اپنی اندھیری کوٹھری سے سر باہر نہ نکالو ، تو تمہیں کہو کہ کیا عُذْر کرو گے ؟ واحدِ قہّار کو کیا جواب دو گے ! “

”گھنٹوں بلکہ دنوں مہینوں قانون کا نون ، دُنْیَوی فنون یا ناولوں ، اَفسانوں ، اخباروں ، دیوانوں کے مطالعے میں گزارتے  ہو ، خدا کو مان کر ، قیامت کو حق جان کر ایک نظر اِدھر بھی ! مگر اس کے ساتھ تعصُّب ونفسانِیَت سے قطعِ نظر بھی ! خدا نے چاہا تو یہ اَوراق تمہیں بہت کام آئیں گے ، بڑے ہولناک صدموں کے دن سے بچائیں گے۔“  

( فتاوٰیٰ رضویہ ، فتاویٰ الحرمین ، 20 / 349-350 )

قیامِ تعظیمی

ہمارے صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان اور تابِعینِ عظام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام  کو اپنے زمانے میں دینِ مَتِین کے اَہَم ترین معاملات درپیش تھے ، اُنہیں کلمۂ خُدا کی بلندی ، دین مَتِین کی اشاعت ، شہروں اور لوگوں کی درستی ، فتنہ و فساد کی سرکوبی ، فرائضِ دینی واحکاماتِ الٰہی کے نفاذ ، باہَمی معاملات کی اصلاح ، ایمانی اَرکان کی حفاظت اور احادیثِ نَبَوی کی روایت وغیرہ اَہَم ترین معاملات سے فرصُت ہی نہیں تھی ، لہٰذا اگر کوئی نیک اور مُستحب کام بعد کے مسلمانوں میں رائج ہے ، علمائے کرام اسے اچھا سمجھتے ہیں ، شریعت اسے منع نہیں کرتی تو اس کام میں کوئی حَرْج نہیں بلکہ اچھی اچھی نیّتوں کے ساتھ کرنے سے ثواب ملے گا۔ ذکرِ ولادتِ مصطفے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وقت جو قیامِ تعظیمی کیا جاتا ہے اس کے متعلق وسوسہ ڈالنے والے شیطانوں کے رَد میں امامِ اہلِ سنت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے رسالہ ”اِقَامَۃُ الْقِیَاْمَۃ“ تحریر فرمایا جس نے واقعی شیطانِ لَعِین اور اس کی ظاہری ومعنوی اولاد کے سَر پر قِیامت ڈھادی ، امامِ اہلِ سنت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے رسالۂ مبارکہ میں آیات واحادیث اور مضبوط دلائل سے ثابت کیا کہ قیامِ تعظیمی مستحب ہے۔ ایک مَقام پر صحابۂ کرام وتابعینِ عظام کی مذکورہ بالا اہم ترین دینی مصروفیات وخدمات کا تذکرہ کرنے کے بعد امامِ اہلِ سنت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے جس طرح تمثیلی انداز میں سمجھایا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ، اس میں گل وگلزار کے رنگ بھی ہیں ، اردو ادب کے ڈھنگ بھی ہیں۔ امام لکھتے ہیں :

”جب بِفَضْلِِ اﷲِ تعالٰی اُن کے زورِ بازو نے دینِ الٰہی کی بنیاد مُسْتَحْکم کردی اور مَشارِق ومَغارِب میں مِلّتِ حَنَفِیَّہ کی جَڑ جَم گئی ، اُس وقت ائمہ وعلمائے مابعد نے تخت وبخت سازگار پاکر بیخ وبُن جمانے والوں کی ہِمّتِ بلند کے قدم اور باغبانِ حقیقی کے فَضْل پر تکیہ کرکے اَہَمّ فَالْاَہَمّ کاموں میں مشغول ہوئے اب توبے خلشِ صَرصَر واندیشۂ سَمُوم اور ہی آبیاریاں ہونے لگیں۔ فِکرِ صائِب نے زمینِ تدقیق میں نہریں کھودِیں۔ ذہنِ رَواں نے زُلالِ تحقیق کی ندیاں بہائیں۔ علماء واولیاء کی آنکھیں ان پاک مبارک نونہالوں کے لئے تھالے بنِیں۔ ہواخواہانِ دین ومِلّت کی نسیمِ اَنفاسِ مُتبرِّکہ نے  عِطْر باریاں فرمائیں ، یہاں تک کہ یہ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا باغ ہرا بھرا پَھلا پُھولا لہلہایا اور اس کے بِھینے پھولوں ، سُہانے پتّوں نے چشم وکام ودماغ پر عَجَب ناز سے احسان فرمایا۔ اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن۔ اب اگرکوئی جاہل اعتراض کرے : یہ کنچھیاں جواَب پھوٹیں... جب کہاں تھیں ؟ یہ پتّیاں جو اَب نکلِیں... پہلے کیوں نِہاں تھیں ؟ یہ پتلی پتلی ڈالیاں جو اَب جھومتی ہیں... نوپیدا ہیں ! یہ ننّھی ننّھی کلیاں جو اَب مہکتی ہیں... تازہ جلوہ نماہیں ! اگر ان میں کوئی خوبی پاتے تو اگلے کیوں چھوڑجاتے ؟ تو اس کی حَماقت پر اس الٰہی باغ کا ایک ایک پھول قہقہہ لگائے گا کہ : او جاہل ! اگلوں کو جَڑ جمانے کی فکر تھی ، وہ فُرصَت پاتے تو یہ سب کچھ کر دِکھاتے۔ آخِر اس سَفاہَت کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ وہ نادان اس باغ کے پھل پھول سے محروم رہے گا۔“  ( فتاویٰ رضویہ ، 26 / 544 )

محبوب کی رخصت

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! اِبتِدا میں حضورِ اقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مدینہ منوّرہ تشریف آوری کا تذکرہ ہوا ، ایک ایک لفظ کیسے مَسَرّت وشادمانی سے جھوم رہا تھا ! اب آئیے ! ماحول کی سوگواری دیکھئے ، اُسی سے مُتّصِل حُزْنِیَہ تحریر پڑھئے ، دل بیٹھے جاتے ہیں ، آنکھیں اُمنڈ آتی ہیں ، سورۃُ النّصر حضورِ اقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مرضِ وصال شریف میں نازل ہوئی ، حضور فوراً باہر تشریف لائے ، جمعرات کا دن تھا ، مِنبَر پر جلوہ فرما ہوئے ، بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ کو حکم دیا کہ مدینے میں ندا کردو ”لوگو ! رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی وَصِیَّت سننے چلو۔“

مدینۂ منوّرہ میں تشریف آوری کا واقعہ ذکر کرنے کے بعد  امامِ اہلِ سنّت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ مَجلسِ وصیّت کے احوال لکھتے ہیں :

”ایک دن آج ہے کہ اس محبوب کی رخصت ہے ، مجلسِ آخِری وصیّت ہے ، مجمع تو آج بھی وہی ہے ، بچوں سے بوڑھوں تک ، مَردوں سے پردہ نشینوں تک سب کا ہجوم ہے ، نِدا ئے بلال سنتے ہی چھوٹے بڑے‘ سینوں سے دل کی طرح بے تابانہ نکلے ہیں ، شہر بَھر نے مکانوں کے دروازے کُھلے چھوڑ دئے ہیں ، دل کمھلائے ، چہرے مُرجھائے ، دن کی روشنی دھیمی پڑگئی کہ آفتابِِ جہاں تاب کی وَداع نزدیک ہے ، آسمان پژمُردہ ، زمین اَفسُردَہ ، جدھر دیکھو سنّاٹے کا عالَم ، اتنا اِزدحام اور ہُو کا مقام ، آخِری نگِاہیں اس محبوب کے رُوئے حق نُما تک کس حَسرت و یاس کے ساتھ جاتی اور ضُعفِ نَومیدی سے ہلکان ہو کر بِیخودانہ قدموں پر گِر جاتی ہیں۔“

 ( فتاویٰ رضویہ ، 15 / 702 )

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! امامِ عشق ومحبت اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے کُتُب ورسائل ایسے حسِین شَہ پاروں سے بھرپُور ہیں ، یہاں حصولِ برکت کے لئے چند اِقتبِاس ذکر کئے گئے ہیں ، سچ تو یہ ہے کہ کلامِ رضا کی خوبیوں کا صحیح معنوں میں اِحاطہ کرنا ہمارے بس کی بات نہیں ، کلامِ رضا سے متعلق داغ دہلوی کا شعر ہی کافی ہے :

مُلْکِ سُخَن کی شاہی تم کو رضؔا مسلّم

جس سمت آگئے ہو سِکّے بٹھا دئیے ہیں

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، شعبہ تراجم ، المدینۃُ العلمیہ    Islamic Research Center



[1] اے رب ! میری امت مجھے ہبہ کردے۔

[2] میری امت ، میری امت۔

[3] مجھے اپنی فکر ہے ، کسی اور کے پاس جاؤ۔

[4] اے رب ! میری امت۔


Share

Articles

Comments


Security Code