دِلوں میں چُھپے سوالات اور اُن کے جوابات

علم کی چابی

دِلوں میں چُھپے سوالات اور اُن کے جوابات

*مولانا محمد عدنان چشتی عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اگست 2023

حضور نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے صحابَۂ کرام  رضی اللہ عنہم مختلف انداز میں سوالات کیا کرتے تھے ، اسی طرح بہت بار ایسا بھی ہوتا کہ ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کسی بات کو صحابَۂ کرام کے ذہن میں بٹھانے کےلئے اُن سے سوالات کیا کرتے اور پھر خود ہی جواب بھی ارشاد فرماتے ، بارہا ایسا بھی ہوتا کہ کوئی صحابی آپ سے کچھ پوچھنے کے لئے حاضر ہوتے تو ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان کے پوچھنے سے پہلے ہی نہ صرف ان کے دِ ل میں چُھپا سوال بتا دیا کرتے تھے بلکہ جواب بھی ارشاد فرما دیتے ۔یہاں کچھ ایسے ہی 3سوالات اور ان کے جوابات ذکر کئے جا رہے ہیں جیسا کہ

 ( 1 ) تم نیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھنے آئے ہو !

حضرت وابِصَہ اَسَدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوا ، میرا ارادہ یہ تھا کہ آج میں نیکی اور گناہ میں سے کوئی ایسی شے نہیں چھوڑو ں گا کہ جس کے بارے میں سوال نہ کر لوں۔میں لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر آگے جانے لگا تو صحابَۂ کرام نے کہا : اے وابِصَہ ! رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے دور رہو۔ میں نے کہا : دَعُونِي اَدْنُو مِنْهُ فَاِنَّهٗ مِنْ اَحَبِّ النَّاسِ اِليَّ مجھے چھوڑدو ، مجھے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قریب ہولینے دو کیونکہ آپ مجھے لوگوں میں سے سب سے زیادہ محبوب ہیں۔رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اُدْنُ يَا وَابِصَةُ اے وابصہ ! قریب آجاؤ۔  ( حضور نے دومرتبہ اس طرح فرمایا )  

 حضرت وابِصَہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں اتنا قریب ہوا کہ میرے گھٹنے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مبارک گھٹنوں کو چھونے لگے۔نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اے وابصہ ! میں تمہیں اس چیز کے بارے میں بتاؤں کہ جس کے متعلق تم پوچھنے آئے ہو ؟ میں نے عرض کی : یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! آپ بتادیجئے۔ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جِئْتَ تَسْاَلُنِي عَنِ الْبِرِّ وَالْاِثْمِ یعنی تم نیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھنے آئے ہو۔ میں نے عرض کی : جی ہاں ! تو آپ نے اپنی تین مبارک انگلیاں جمع کرکے میرے سینے پر مارتے ہوئے فرمایا : يَا وَابِصَةُ اِسْتَفْتِ نَفْسَكَ یعنی اے وابصہ ! اپنے آپ سے پوچھو ! نیکی وہ ہے جس پر دل مطمئن ہو اور طبیعت جمے اور گناہ وہ ہے جو طبیعت میں چبھے اور دل میں کھٹکے اگرچہ لوگ تمہیں فتویٰ دیں یا تم سے لیں۔

 ( مسندامام احمد ، 6 / 292 ، حدیث : 18033 )

حکیمُ الْاُمّت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہ علیہ اس روایت کے تحت فرماتے ہیں : یہ غیبی خبر ہے کہ حضرت وابصہ  ( رضی اللہ عنہ )  جو سوال دل میں لے کر آئے تھے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کے بغیر عرض کئے ہوئے ارشاد فرمادیا ، معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دلوں کے حال پر مطلع فرمایا ہے ( یعنی خبردے دی ہے ) ، کیوں نہ ہو انہیں تو پتھروں کے دلوں پر اطلاع ہے کہ فرماتے ہیں اُحد پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے۔ حضور  ( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم )  نے حضرت وابصہ کے سینہ پر ہاتھ رکھ کر ان کے قلب کو فیض دیا جس سے ان کا نفس بجائے امّارہ کے مُطْمَئِنّہ[1]  ہوگیا اور دل خطرات ، شیطانی وسوسوں سے پاک و صاف ہوگیا۔ صوفیاء کرام جو مریدوں کے سینے پر ہاتھ مار کر یا توجہ ڈال کر انہیں فیض ( یعنی فائدہ اور نفع )  دیتے ہیں ان کی اصل یہ حدیث بھی ہے۔  ( جس پر دل مطمئن ہو )  یعنی آج سے اے وابصہ گناہ اور نیکی کی پہچان یہ ہے کہ جس پر تمہارا دل و نفس مُطْمَئِنّہ جمے وہ نیکی ہوگی اور جسے تمہارا دل و نفس مُطْمَئِنّہ قبول نہ کرے وہ گناہ ہوگا ، یہ حکم حضرت وابصہ کے لئے آج سے ہوگیا ، یہ حضور  ( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم )  کے ہاتھ شریف کا اثر ہوا ، ہم جیسے لوگوں کو یہ حکم نہیں ، یہاں  ( صاحبِ )  مرقات نے فرمایا کہ غیر مجتہد یعنی مقلد تو اپنے امام سے فتویٰ لےاور مجتہد اپنے دل سے۔  ( اگرچہ لوگ اس کا فتویٰ دے دیں )  یعنی عام لوگوں کے فتوے کا تم اعتبار نہ کرنا کیونکہ ان کے دلوں پر ہمارا ہاتھ نہیں پہنچا اپنے دل و نفس کا فتویٰ قبول کرنا کہ تمہارے دل کا فتویٰ ہمارا فیصلہ ہوگا کہ ہمارا ہاتھ تمہارے دل پر ہے۔ ( مراٰۃ المناجیح ، 4 / 235 )

 ( 2 ) دل میں ہے بات کیا ؟ حضور جانتے ہیں !

حضرت عبداللہ بن عمر   رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ایک اَنصاری صحابی رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگا ہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی : یارسولَ اللہ ! میں آپ سے کچھ با تیں پوچھنا چاہتا ہوں ۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : بیٹھ جاؤ۔ پھر قبیلۂ ثَقیف کا ایک آدمی آیا اور عرض کی : یا رسول اللہ ! میں آپ سے کچھ پوچھنا چا ہتا ہوں۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : انصا ری تجھ سے پہلے آیا ہے۔ انصاری صحابی نے عرض کی : یارسولَ اللہ ! یہ ایک مسافر ہے اورمسافر کا حق زیا دہ ہوتا ہے لہٰذا آپ اس سے شروع فرمالیجئے۔

رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اُس ثَقَفی کی طرف متو جہ ہوئے اور فرمایا : اِنْ شِئْتَ اَجَبْتُكَ عَمَّا كُنْتَ تَسْاَلُ ، وَاِنْ شِئْتَ سَاَلْتَنِي وَاُخْبِرْكَ یعنی اگر تم چاہو تو میں تمہیں ان چیزوں کے متعلق بتادوں جن کے بارے میں تم پوچھنے آئے ہو اور اگر چاہو توتم مجھ سے سوال کرلو اور میں تمہیں جواب دوں گا۔ اس ثقفی نے عر ض کی : یا رسول اللہ ! میں جو پوچھنا چاہتا ہوں آپ ان کے جوابات ارشاد فرما دیجئے۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : تم مجھ سے رکوع ، سجو د ، نما ز اور رو زہ کے بارے میں سوالات کرنے آئے ہو۔وہ ثقفی صحابی کہنے لگے : لَا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا اَخْطَاْتَ مِمَّا كَانَ فِي نَفْسِي شَيْئًا یعنی اُس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا آپ نے میرے دل کی بات بتانے میں ذرّہ برابر بھی خطا نہیں کی۔

رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جب تم رکو ع کرنے لگو تو اپنی ہتھیلیا ں اپنے گھٹنو ں پر رکھا کر واور اپنی انگلیاں کشا دہ کر لیا کرو پھر ٹھہرے رہو تاکہ ہر عضو اپنی جگہ جم جائے اور جب سجدہ کرنے لگو تو اپنی پیشا نی خو ب جما ؤ اور ٹھونگے نہ مارو ، دن کی ابتداء اور انتہاء کے وقت نما ز پڑھا کر و۔ اس نے عرض کی : یانبیَّ اللہ ! اگر میں ان دونوں اوقا ت کے درمیان نماز پڑھوں تو ؟  فرمایا : پھر تو تم نما ز ی ہو  [2]   اور ہر مہینے کی تیر ہ ، چودہ اورپند رہ تاریخ کا رو زہ رکھا کرو۔ پھر وہ ثقفی صحابی اٹھ کر چلے گئے۔

 ( 3 ) آپ خود ہی بتادیجئے !

اس کے بعد نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم انصا ری صحابی کی طرف متوجہ ہوئے اور اسے بھی یہی فرمایا کہ اِنْ شِئْتَ اَخْبَرْتُكَ عَمَّا جِئْتَ تَسْاَلُ ، وَاِنْ شِئْتَ سَاَلْتَنِي فَاُخْبِرْكَ یعنی اگر تم چاہو تو میں تمہیں بھی ان چیزوں کے متعلق بتادوں جن کے بارے میں تم پوچھنے آئے ہو اور اگر چاہو توتم مجھ سے سوال کرلو ، میں تمہیں جواب دے دوں گا۔ انہوں نے عر ض کی : لَا يَانَبِيَّ اللَّهِ ! اَخْبِرْنِي عَمَّا جِئْتُ اَسْاَلُكَیعنی یا رسول اللہ ! نہیں آپ خو د ہی بتادیجئے جو میں آپ سے پوچھنے آیا ہوں۔

حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : تم مجھ سے یہ پوچھنے آئے ہو کہ جب حاجی اپنے گھر سے نکلتا ہے تو اس کے لئے کیا ثواب ہے ؟ جب عرفات میں کھڑا ہوتا ہے تو اس کے لئے کیا ثواب ہے ؟ جب وہ جِمار پر  ( شیطان کو )  کنکریاں مارتا ہے تو اس کے لئے کیا ثواب ہے ؟ جب اپنا سر منڈواتا ہے تو اس کے لئے کیا ثواب ہے ؟ اور جب وہ حج کا آخر ی طو اف پورا کر لیتا ہے تو اسے کیاثواب ملتا ہے ؟

 اس انصاری صحابی نے عر ض کی : یا نبیَّ اللہ ! اس ذات کی قسم ! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ، آپ نے میرے دل کی بات بتانے میں ذرا سی بھی خطا نہیں کی۔

رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جب حاجی اپنے گھر سے نکلتا ہے تو اس کی سواری کے ہر قد م کے بدلے اس کے لئے ایک نیکی لکھی جاتی ہے یااس کا ایک گناہ مِٹادیا جاتا ہے اور جب وہ عَرفہ میں وقوف کرتا ہے تو اللہ پاک  ( اپنی شان کے لائق )  آسمان ِدنیا پر نزول فرماتا ہے اور ارشا د فرماتا ہے : میرے ان بندوں کو دیکھو کہ بکھر ے ہوئے با ل اور غبار آلود سر  ( والے )  ہيں ،  ( اے فرشتو ! ) گو اہ ہوجاؤ کہ میں نے ان کے گناہ معاف کردئیے اگرچہ وہ با رش کے قطروں اور ریت کے ذرّوں کے برابر ہوں ، اورجب وہ جمار کی رمی کر تا ہے تو قیامت تک اس کے ثواب کو کوئی نہیں جان سکتا اور جب حاجی اپنا سر منڈواتا ہے تو اس کے سر سے گر نے والے ہر بال کے بد لے قیامت کے دن نور ہوگا اور جب وہ بیت اللہ کا آخری طواف کرتا ہے تو اپنے گناہو ں سے ایسا پاک ہوجا تاہے جیسے اپنی پیدائش کے دن تھا۔  ( صحیح ابن حبا ن ، 3 / 181 ، حدیث : 1884 )

پیارے اسلامی بھائیو ! ان واقعات سے ہمیں یہ سیکھنے کو ملتا ہے کہ علمِ دین حاصل کرنے کے لئے علمائے کرام کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اپنے شرعی مسائل بالخصوص عقائدِ اسلام ، فرائض  اور  واجبات وغیرہ کے بارے میں سوالات کریں اور خوب خوب علمِ دین سیکھیں۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ذمہ دار شعبہ فیضان حدیث المدینۃ العلمیہ ، کراچی



[1] نفسِ انسانی کے تین درجے ہیں :  ( 1 ) نفسِ اَمّارہ : جو انسان کو برائی کی رغبت دیتا ہے  ( 2 ) نفسِ لَوّامہ : جو گنہگار کو گناہ کے بعد ملامت کر کے توبہ کی طرف راغب کرتا ہے  ( 3 ) نفسِ مُطْمَئِنّہ : جو بندگانِ خدا کو ذکر ِ خداسے سکون پہنچاتا ہے۔ ( صراط الجنان ، 10 / 674 )

[2] دن کی ابتدا و انتہا  سے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مراد کیا ہے ؟ یہ تو حضور ہی جانتے ہیں  البتہ دیگر احادیث میں اسی انداز سے فجر و عشاء کی نماز کا فرمایا گیا ہے جبکہ قرآنِ پاک میں بھی ایک ہی آیت میں پانچوں نمازوں کو یوں بیان فرمایا گیا : )اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ اِلٰى غَسَقِ الَّیْلِ وَ قُرْاٰنَ الْفَجْرِؕ-اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوْدًا ( ۷۸ ) ( ترجمۂ کنزالایمان : نماز قائم رکھو سورج ڈھلنے سے رات کی اندھیری تک اور صبح کا قرآن  بےشک صبح کے قرآن میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ ( پ15 ، بنی اسرآءیل ، آیت : 78 )  اس آیت میں  فرمایا کہ نماز قائم رکھو سورج ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک۔ اس دورانیے میں  چار نمازیں  آگئیں : ظہر ، عصر ، مغرب ، عشاء ، کیونکہ یہ چاروں  نمازیں  سورج ڈھلنے سے رات گئے تک پڑھی جاتی ہیں ۔ مزید فرمایا کہ صبح کا قرآن قائم رکھو ، اس سے نماز ِفجر مراد ہے۔ ( صراط الجنان ، 5 / 495 )


Share

Articles

Comments


Security Code