Book Name:Imam e Azam Ki Mubarak Aadatein

ہیں علم و تقوٰی کے آپ سَنْگَم، اِمامِ اعظم ابوحنیفہ!([1])

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                               صَلَّی اللہ عَلٰی مُحَمَّد

 ایک اَہَم وضاحت

پیارے اسلامی بھائیو! ہم نے ابھی پارہ:11، سورۂ توبہ کی آیت:100 سُنی۔ اس آیتِ کریمہ کو لے کر ایک غلط فہمی بھی ہو سکتی ہے کہ جن لوگوں نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ عنہم کی زِیارت کی، ان میں بعض بڑے بدبخت بھی ہوئے ہیں، جیسے یزید پلید یہ صحابئ رسول کا بیٹا تھا، اس نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ عنہم کی زِیارت بھی کی ہے تو کیا یہ بھی اس آیتِ کریمہ میں بیان کئے گئے فضائِل کا حق دار ہو گا؟ اس لئے وضاحت کر دُوں کہ ہر وہ شخص جسے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ عنہم کی صحبتیں نصیب ہوئی ہیں، وہ بخشا ہوا ہے، ایسا نہیں ہے بلکہ اس آیتِ کریمہ میں اللہ پاک نے 2 شرطیں لگائی ہیں، ارشاد فرمایا:

وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ   (پارہ:11،اَلْتَّوْبَہ:100)

ترجمہ کنزُ العِرْفان:اور دوسرے وہ جو بھلائی کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والے ہیں

آیتِ کریمہ کے ان الفاظ کی وضاحت کرتے ہوئے مفسرینِ کرام فرماتے ہیں: صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ عنہم کی صِرْف پیروی کرنا نجات کیلئے کافی نہیں ہے، صِرْف پیروی تو مُنَافِق بھی کرتے تھے،بلکہ اُن کی اِتِّباع احسان کے ساتھ چاہئے، احسان کے معنیٰ ہیں: * اچھا کہنا * اچھا جاننا * اچھا ماننا۔ یعنی * بندہ مُنہ سے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ عنہم کی تعریف کرے * دِل سے انہیں اچھا جانے، مانے * پِھر اُن کی اِتِّباع کرے۔ احسان نے حضراتِ صحابہ رَضِیَ اللہ عنہم میں اور عام مسلمانوں میں فرق کر دیا کہ اُن حضرات سے رَبِّ کریم مطلقاً راضی ہے کہ یعنی وہ سابِق


 

 



[1]...وسائلِ بخشش، صفحہ:573ملتقطاً۔