Book Name:Bemari Ke Aadaab
(3):لفظ ”شکایت“ سے بچیے...!!
تیسرا اَدَب: ہمارے ہاں عموماً لفظ شکایت بولا جاتا ہے۔ مجھے بُخار کی شکایت ہے، زُکام کی شکایت ہے، دردِ سَر کی شکایت ہے وغیرہ۔ یہ بھی بولنا گُنَاہ نہیں ہے، اِس میں حرج بھی نہیں ہے، کوئی ایسے کہے تو گنہگار نہیں ہو گا۔ البتہ! اِس لفظ سے بچنا بہتر ہے۔ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: عوام و خواص کی زبان پر یہ جملے بھی رہتے ہیں: بخار کی شکایت ہے، زُکام کی شکایت ہے۔ یہ نہیں کہنا چاہیے۔ اِس لیے کہ بیماریوں کا ظُہور اللہ پاک کی طرف سے ہوتا ہے، جب ایسا ہے توشکایت کیسی...؟ ([1])
کتاب؛بہارِ شریعت کے مُصَنِّف مفتی امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ بیمار تھے۔ میں عیادت کے لیے گیا۔ میں نے عام بول چال کے مُطَابِق کہا: اب شکایت کا کیا حال ہے؟ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ نے فرمایا: شکایت کس سے ہو؟ اللہ پاک سے نہ تو شکایت پہلے تھی، نہ اب ہے۔ بندہ کو خُدا سے کیسی شکایت...؟
مفتی صاحِب فرماتے ہیں: وہ دِن تھا کہ میں نے بیماری کے لیے یہ لفظ بولنے سے توبہ کر لی۔([2])
پیارے اسلامی بھائیو! یہاں ایک تَوَجُّہ دِلاؤں، غور فرمائیے! ہمیں اپنی بیماری کا اَحْوال بتانے کا بھی ڈھنگ نہیں ہے۔ کب؟ کس کام کے لیے؟ کہاں؟ کیا بولنا ہے، کونسا لفظ استعمال کرنا ہے، کون سا نہیں کرنا۔ اِس کی بھی معلومات نہیں ہوتی۔ عموماً لوگ کہتے ہیں: