Book Name:Bemari Ke Aadaab
بیمار ہو گئے، اللہ پاک کے سب سے آخری نبی، مُحَمَّدعربی صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ عنہم کو ساتھ لے کر ان کی تیمار داری کے لیے تشریف لائے تو دیکھا کہ حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہ عنہ چہرہ زمین کی طرف کر کے لیٹے ہوئے تھے، پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم نے فرمایا: عثمان! کیا ہوا، اپنا سَر کیوں نہیں اُٹھاتے؟ عرض کیا: یا رسول اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم ! مجھے اللہ پاک سے حیا آتی ہے۔ سرکارِ عالی، مکے مدینے کے والی صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم نے فرمایا: کیوں حیا آتی ہے؟ عرض کیا: یارَسُول اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم ! میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میرا پاک پروردگار مجھ سے ناراض نہ ہو گیا ہو...!! ([1])
اللہ اکبر! اے عاشقانِ رسول !حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہ عنہ نے کوئی گُنَاہ کا کام نہیں کیا تھا، اللہ پاک کی ناراضی والا کوئی کام نہیں ہوا تھا، مگر جو سچا عاشِق ہوتا ہے، اُسے بَس ہر وقت یہ دھڑکا ہی لگا رہتا ہے کہ کہیں میرا مَحْبُوب مجھ سے ناراض نہ ہو جائے، حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہ عنہ کو بھی اسی طرح دھڑکا لگا ہوا تھا، آپ زمین کی طرف چہرہ کر کے لیٹے ہوئے تھے، سَر اُوپَر نہیں اُٹھا رہے تھے، گویا اپنے طَوْر پر اِظْہارِ ندامت کر رہے تھے کہ ہائے! میرا رَبّ مجھ سے ناراض تو نہ ہو گیا ہو۔ جب سلطانِ انبیا، محبوبِ خُدا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم نے اپنے پیارے صحابی حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہ عنہ کی بات سُنی تو فرمایا: عثمان! یہ جبریل علیہ السَّلَام ہیں، مجھے خبر دے رہے ہیں کہ تم آسمان والوں کا نُور ہو، زمین والوں کا اور جنّت والوں کا چراغ ہو۔([2])
جو دِل کو ضیا دے جو مقدر کو جِلا دے وہ جلوۂ دیدار ہے عثمانِ غنی کا
جس آئینہ میں نُورِ اِلٰہی نظر آئے وہ آئینہ رُخسار ہے عثمان غنی کا([3])