Book Name:Luaab e Pak e Mustafa Ki Barkatein
اچھلتے ہیں، کُودتے ہیں، نیچے کو جھکتے ہیں، اُٹھتے ہیں، بڑی بڑی عمارتوں سے لوگ نیچے گِر جاتے ہیں، اس کے باوُجُود یہ ڈھیلا گِرتا بھی نہیں ہے، اپنی جگہ سے ہلتا بھی نہیں ہے۔ کیسی کمال کی بات ہے نا...!!
آنکھ کا ڈھیلا کیسے ٹھہرا ہوتا ہے؟ چند چیزیں ہیں؛ ایک تو ہڈی کا خَول ہے پِھر اس کے ساتھ اعصاب ہوتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ کَوْلاجِن(Collagen)، اِیلاسٹِن(Elastin)، ہائِلَورَوْنِکْ اَیْسڈ (Hyaluronic acid) وغیرہ کئی قسم کے کیمیکلز ہوتے ہیں جن کے ذریعے آنکھ کا ڈھیلا اپنی جگہ ٹھہرا ہوتا ہے۔ اگر خدانخواستہ کسی کا یہ ڈھیلا باہَر نکل جائے تو آج کی میڈیکل سائنس میں اُس کا عِلاج یہ ہے کہ ڈاکٹر حضرات سب سے پہلے تو دوا کھلاتے ہیں تاکہ پٹھے ریلیکس ہو جائیں، پِھر آنکھ کے اُوپَر دَوا لگائی جاتی ہے تاکہ آنکھ کے ٹِشو ٹھیک رہیں، انہیں کوئی خراش وغیرہ نہ آجائے، پِھر ڈھیلے کو اندر رَکھا جاتا ہے، بعض دفعہ بڑا حُسّاس قسم کا آپریشن بھی کرنا پڑتا ہے۔ یہ آج کے ترقی یافتہ دور کا طریقۂ عِلاج ہے۔
اب ذرا روایت سنیے! غزوۂ بدر کا موقع تھا، حضرت رافِع بن مالک رَضِیَ اللہ عنہ صحابئ رسول ہیں، آپ کو تیر لگا ، آنکھ باہر نکل پڑی ۔ اللہ اکبر!
بگڑی باتوں کی فِکْر کر نہ حَسنؔ کام سب ہے بنا ہوا تیرا([1])
حضرت رافِع بن مالک رَضِیَ اللہ عنہ بارگاہِ رسالت میں حاضِر ہو گئے۔ طبیبِ دوجہاں صلی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم نے اپنا لُعابِ دَہَن اُن کی آنکھ پر لگایا اور دُعا فرمائی ۔ حضرت رافِع بن مالک رَضِیَ اللہ عنہ فرماتے ہیں: پیارے آقا صلی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم کے لعابِ دہن کی برکت سے