Book Name:Guftagu Kay Adaab
دیکھا، آپ صلّی اللہ ُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم نے مجھے بُلایا، نہ ڈانٹا، نہ مارا، نہ بُرا بَھلا کہا بلکہ بڑی نرمی سے فرمایا: نماز میں باتیں نہیں کرتے، نماز میں تو اللہ پاک کی تسبیح کرتے ہیں، تکبیر کہتے ہیں اور قرآن کی تِلاوت کیا کرتے ہیں۔ ([1])
نرمیِ خُوئے لِینَتْ پہ دَائم دُرود گرمیِ شانِ سَطْوَت پہ لاکھوں سلام([2])
وضاحت: اللہ پاک کے حبیب صلّی اللہ ُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم کی نرمی فرمانے کی پاکیزہ عادت پر ہمیشہ ہمیشہ رحمتیں نازل ہوں اور آپ کے رعب و دَبدبہ کی شان و شوکت پر لاکھوں سلام ہوں۔
سُبْحٰنَ اللہ! معلوم ہوا؛ کسی کو سمجھانا بھی ہو تو نَرْمی اور پیار سے سمجھایا جائے گا۔ یہی سُنّتِ مبارَکہ ہے۔
افسوس! ہمارے ہاں سمجھانے کے انداز بھی سُدھارنے والے نہیں، اُلٹا بگاڑنے والے ہوتے ہیں۔ یہ شکوہ عموماً سننے کو مِل جاتا ہے کہ کوئی ہماری سُنتا نہیں ہے مگر اس بات پر کم ہی لوگ غور کرتے ہیں کہ ہمارے سمجھانے کا انداز کیا ہوتا ہے *چھوٹا بچہ غلطی کر دے تو لوگ اُسے ڈانٹنا شروع کر دیتے ہیں *8 یا 10 سال کے بچے بعض دفعہ مسجدوں میں آتے ہیں، شرارت بھی کر دیتے ہیں، ایسا دیکھا جاتا ہے کہ لوگ غصّے میں آ کر انہیں تھپڑ بھی مار دیتے ہیں، پِھر اِس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ بعضوں کا تو دِل ٹوٹ جاتا ہو گا اور وہ ساری زندگی مَسجِد کا رُخ نہیں کرتے ہوں گے *ایسے ہی گھروں میں سمجھانے کا اَنداز سخت ہوتا ہے *ماں کی محبّت دُنیا میں مشہور ہے مگر بعض مائیں بھی بڑی سختی سے بچوں کو